جب ملزم تعاون دے رہا ہے تو گرفتاری کیوں؟

جس دیش کی جیلوں میں بند قیدیوں میں قریب 70فیصدی قیدی مقدمے زیر سماعت ہوں اور جہاں چارج شیٹ برائے نام ہونے سے گرفتاری کو ضروری سمجھ لیا گیا ہو وہاں ہر ملزم کی گرفتاری کی کے جواز کو خارج کرتی بڑی عدالت کا حالیہ فیصلہ بے حد با جواز اور دور رش اہمیت کا حامل ہے سپریم کورٹ نے پولس کی طرف سے ریگولر طور سے ہور رہی گرفتاری کو لیکر تشویش ظاہر کی ہے اس کا کہنا تھا کہ شخصی آزادی کو آئینی مینڈیٹ کا ایک اہم ترین پہلو مانتے ہوئے کہ جب ملزم جانچ میں تعاون کر رہا ہواور یہ ماننے کا کوئی کا سبب نہیں ہے کہ وہ فرار ہو جائے گا یا اسے اثر انداز کرے گا تو گرفتاری کو روٹین طریقہ نہیں بنانا چاہئے ۔ جسٹس سنجے کشن کور وار جسٹس رشی کیش رائے کی بنچ نے کہا کہ گرفتار ی سے کسی شخص ساک اور عزت کو ایک بے جا طریقے سے نقصان پہونچتا ہے پولس کو اسکا سہارہ نہیں لینا چاہئے کہ کیونکہ قانون کے تحت گرفتاری کی اجازت ہے ۔ پیشگی ضمانت سے متعلق ایک شخص کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا فیصلہ اور جواز پر مبنی اور دور اندیشی کے اہمیت کا حامل ہے چارج داخل کرتے وقت ملزم کی گرفتاری ضروری نہیں ہے ۔جکملزم کی گرفتاری تبھی ہو سکتی ہے جب معاملہ سنگین ہو یا ملزم کے بھاگ جانے یا اس کے ذریعے گواہ پر دباو¿ ڈالنے کا اندیشہ ہو یا پھر پوچھ تاچھ بے حد ضروری ہو عموماً عدالتیں چارج شیٹ کو ریکارڈ پر لینے کے لئے خانہ پورے کے طور پر سبھی ملزمان کی گرفتاری پر زور دیتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ یہ غلط روایت ہے سی آر پی سی کی دفعہ 170کے مقاص کے بر عکس ہے جس میں ملزمان کی حراست کے بارے میں کہا گیا ہے کہ گرفتاری بہت سنگین معاملہ ہے اسی سال مارچ میں ایک دوسرے معاملے میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد من مانی گرفتاری شخص کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور ایسی گرفتاری کرپشن کا ذریعہ بھی بنتی ہے شخص کی آزادی کی بنیادی حقوق میں کٹوتی کی من مانی چھوٹ نہیں دی جا سکتی جہاں ملزم سے پوچھ تاچھ کے لئے اس کو حراست میں لینا ضروری ہے گرفتاری بھی اسی میں ہونی چاہئے مطلب گرفتاری آخری متبادل ہے لیکن ہماری پولس کو زیادہ تر ان آخری متبادل کو پہلا متبادل اپناتے ہوئے دیکھا گیا ہے پولس اور گرفتاری کا خوف ایسا ہے کہ لوگ گرفتاری سے بچنے کے لئے نہ صرف کیسے کیسے جرائم کو انظام دے ڈالتے ہیں عدالتوں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جہیز اذیت کے 60فیصدی معالے غیر ضروری و غیر مناسب ہوتے ہیں غیر ضروری گرفتاری کے سبب 43.2 فیصدی سہولیتا بے کار چلی جاتی ہیں اس لئے پولس کو مخصوص حالت میں ضروری ہونے پر ہی گرفتاری کرنی چاہئے جس دیش کی جیلوں میں بند قیدیوں میں قریب 70فیصدی قیدی زیر سماعت ہوں اور جہاں بات بات میں گرفتاری کے خطرناک ٹرینڈ کی شکل لے چکا ہو ۔ وہاں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بہت اہم ترین ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟