ای ڈی اور سی بی آئی جانچ میں دیری!

سپریم کورٹ نے بدھوار کو ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کے خلاف ای ڈی -سی بی آئی کے ذریعے درج معاملوں کی جانچ اور سماعت کے لئے دھیمی رفتار پر سخت رویہ اپنایا ہے چیف جسٹس این وی رمن اور ڈی وائی چند چوڑ اور جسٹس سوریا کانت کی بنچ نے کہا کہ جانچ ایجنسیوں کی اسٹیٹس رپورٹ نہ انصافی پر مبنی ہے اس میں 10-15سال تک چارج شیٹ نہ داخل کرنے کی وجہ نہیں بتائی گئی ہے ای ڈی یا سی بی آئی یقینی کرے کی سماعت جلدی پوری ہو عدالتوں میں دوسو سے زیادہ معاملے پڑے ہیں اور کئی اثاثہ جمع کرنے کے معاملے میں ای ڈی نے جائیداد کرک کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا چارج شیٹ داخل کئے بنا کروڑوں روپئے کی املاک کو کرک کرنے سے کوئی مقصد پورہ نہیں ہوگا جواب میں سرکاری وکیل تسار مہتا نے کہا ای ڈی کے کئی معاملوں نے اکثر غیر ملکی کاروائی کی ضرورت ہوتی ہے بڑی عدالت کے وکیل اشون اپادھیائے کی مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کر رہی ہے دیگر جرائم اور معاملوں میں قصور وار پائے گئے عوام کے نمائندوں پر تا حیات پابندی لگانے اور ان کے مقدموں کا جلد نمٹارہ کرنے کی درخواست کی ہے سپریم کورٹ نے کہا قانون کے تحت ریاستی سرکاروں کو غلط نیتی جرائم کے معاملوں کو واپس لینے کا حق ہے بڑی عدالت نے کہا کہ ایسے معاملوں کو واپس لینے کے خلاف نہیں ہے لیکن ایسے معاملوں پر متعلقہ ہائی کورٹ کی طرف سے غور کیا جانا چاہئے سپریم کورٹ نے ایم پی اور ممبران اسمبلی کے خلاف ای ڈی اور سی بی آئی کی طرف سے درج معاملوں کی جانچ اور سماعت میں غیر ضروری تاخیر پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے مرکز سے کہا وہ ضروری انسانی وسائل اور بنیادی سہولیت دستیاب کرائے ماضی اور حال میں ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کے خلاف درج معاملوں میں دیری ہوتی جا رہی ہے کچھ مجرمانہ معاملے تو 15سال پہلے درج ہوئے تھے ایسے میں قصور ثابت ہونے پر تاعمر قید کی سزا ہوسکتی ہے لیکن ایسے معاملوں میں جانچ کی سمت میں سی بی آئی اورای ڈی کی دھیمی کاروائی بہت پریشانی کھڑی کر دیتی ہے اور سی بی آئی کے پاس ایم اور ایم ایل کے خلاف 163مجرمانہ معاملے التوا میں ہیں جبکہ ای ڈی کے پاس 122کیس ہیں جو دس سے گیارہ سال پہلے درج ہوئے تھے لیکن ابھی تک اس میں چارج شیٹ تک دائر نہیں ہوئی ہے سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ بہت معنیٰ رکھتا ہے چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ہم ان ایجنسیوں کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہتے کیونکہ ہم ان کا وقار گرانا نہیں چاہتے لیکن یہ سب بہت کچھ کہتا ہے ایسا لگتا ہے کہ ان ایجنسیوں کو جانچ یا معاملوں کو انصاف کے انجام تک پہونچانے کی کوئی جلد نہیں ہے یہ بات سپریم کورٹ کے سامنے صاف طور پر آئی ہے آج کی حالت میں ایجنسیاں دیری کے بارے میں واضح طور پر بتانا نہیں چاہتیںیہ حالت چونکاتی نہیں بلکہ جب اپنے سسٹم میں بڑے لوگوںکے خلاف شکایت سامنے آتی ہے تب آزادانہ جانچ آسان نہیں ہوتی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی مجرم لیڈر سے ہم امید کر سکتے ہیں کہ وہ دیش میں قانون و نظام سے سنبھالنے والی ایجنسیوں کی پریشانی کو کم کر دے گا اصل تشویش یہی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟