وہاں کیسے رہیں ۔۔۔بیٹوں کو اٹھا لے جاتے ہیں طالبان!

افغانستان میں رہے ایک شخص نے کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ گولیوں کی گونج ، بم دھماکوں کی ہر طرف آوازیں اور پھیل رہے تشدد سے نہیں لگتا تھا کہ اب جان کیسے بچے گی بہر حال جان بچتے بچاتے کسی طرح کابل ایئر پورت پہونچا باہر گولیاں چل رہیں تھیں وہ اندر کسی طرح پہونچا اور فلائٹ ملی ۔ افغانستان کی سرحد میں رہنے تک یقین نہیں ہو رہا تھا سنیچر کی شام دہلی ہوائی اڈے اترنے کے بعد راحت کی سانس لی اپنے ماں باپ ایک بھائی دہلی پہونچے اس افغانی شہری نے بتایا کہ حالات کی جانکاری دیتے وقت اس کی آنکھوں میں دہشت صاف جھلک رہی تھی وہیں ایک خاتون نے بتایا کہ افغانستان میں وہ کیسے رہیں طالبانی بیٹیاں اٹھا لے جاتے ہیں اس کے خوف سے وہاں بڑی تعداد میں افغانی شہری نکلنے کے فراق میں ہیں ہر کسی کا اپنے اور اپنے خاندان کی جان کی فکر ہے ۔وہ بہت ہی خوش قسمت والے ہیں جو بھارت پہونچنے میں کامیاب رہے لیکن ہوائی سروس بند ہونے سے افغانی شہری اتوار سے افغانستان کے الگ الگ ہوائی اڈوں پر پھنسے ہوئے ہیں ایک افغانی شہری نے بتایا کہ اس نے اپنے رشتہ دارو ں کو ہندوستان آنے کا انتظام کر رکھا تھا لیکن رات کو فلائٹ اچانک منسوخ ہونے پر وہ واپس گھر چلے گئے اب سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ افغانستان میں رہ رہے اپنے رشتہ داروں کی مدد کیسے کریں طالبان کے پچھلے کارنامے اور وقت کے ساتھ بدلتے فیصلوں سے افغان شہریوں کا بھروسہ اٹھ چکا ہے ان شہریوں میں ایک خاتون صحر نے بتایا کہ طالبانیوں پر کوئی یقین نہیں کرتا کیونکہ وہاں لڑکیوں کی تعلیم پر ساتویں کلاس کے بعد پڑھنے پر پابندی ہے افغانستان کے دور دراز صوبوں میں مقیم پریواروں میں 14سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کو زبردستی اٹھا لے جاتے ہیں یہ منظر بتا کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہتی ہے کہ اب سب کچھ اوپر والے کے ہاتھ میں ہے وہی جانتا ہے کہ آگے کیا ہوگا افغانستان کے لوگوں کی زندگی کیسے گزرے گی ؟اپنی جمع پونجی کے ساتھ بھارت آنے والے لوگوں میں کئی سرکار ی ملازم بھی ہیں طالبانی فرمان کو انسانیت کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا شہری پناہ گزیں کے طور پر کسی دیش میں زندگی جینے کے لئے تیار ہیں لاجپت نگر دہلی میں موجود افغان شہریوں نے حکومت ہند سے گزارش کی ہے جو لوگ افغانستان میں پھنسے ہیں انہیں لانے کے لئے قدم اٹھائے جائیں تاکہ انہیں بھر پور زندگی جینے کا موقع مل سکے بھارت کی طرف سے اس کے لئے کی جا رہی کوششوں کی تعریف وہاں سے آنے والے لوگ کر رہے ہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!