سیاسی تھپڑ کی گونج !

مہاراشٹر کی سیاست میں تھپڑ کی گونج زورو ں پر ہے وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے کے خلاف متنازع معاملے میں درج کیس کے بعد منگل کو ریاستی پولس نے مرکزی وزیر درمیانی و منجھولی صنعت نارئن رانے کو گرفتار کر لیا دیش کی پچھلے 20برس کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہے جب کسی مرکزی وزیرکو گرفتار کیا گیا ملہاڈ کورٹ نے رات ساڑھے گیارہ بجے رانے کی ضمانت کی عرضی منظور کر لی سرکاری وکیل نے کہا رانے کے بیان سے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ساکھ کو ڈینس پہونچی ہے پولس نے سات دن کی ریمانڈ کی درخواست کی تھی عدالت نے اسے خارج کر دیا اور انہیں ضمانت دے دی گرفتاری کے وقت نارائن رانے کھانا کھا رہے تھے ۔ مودی حکومت میں وزیر رانے کی مہاراشٹر میں گرفتار ی کے جواب میں بی جے پی اب تمام اپوزیشن کی لیڈروں کی طرف سے پی ایم مودی یوگی اور دوسروں کے بارے میں بولے گئے کڑوے رول کو ڈھونڈ کر نکال رہی ہے اس کے ذریعے مہاراشٹر اور خاص کر ممبئی میں فروری کے مہینے میں ہونے والے میونسپل کارپوریشن کے چناو¿ کا ماحول تیار کیا جا رہا ہے رانے کی جن آشرواد یاترا کے ذریعے بھی بی جے پی میونسپل چناو¿ کی تیاری کر رہی رانے کا ادھو کو تھپڑ مارنے کے مبینہ بیان یا بی جے پی نیتا بچاو¿ تو نہیں کر رہے ہیں لیکن صاف لفظوں میں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اتنی بڑی بات نہیں تھی ایک مرکزی وزیر اور مہاراشٹر کے بڑے لیڈر کو گرفتار کیا جائے جواب میں راہل گاندھی سے لیکر ادھو ٹھاکرے تک کے ماضی میں بولے گئے تلخ الفاظ کو بی جے پی نے گنایا ہے رانے کی گرفتاری سے بی جے پی اور شیو شینا میں لڑائی کی پچ تیار ہو رہی ہے رانے ممبئی سے لیکر کون کنٹھ تک میں بڑا بنیاد رکھنے والے نیتا مانے جاتے ہیں بی جے پی اسی بنیاد پر یہ مان رہی ہے کہ رانے کی یاترا اور گرفتاری سے بی ایم سی اور دیگر مقامی چناو¿ میںاس سے فائدہ ہو سکتا ہے اور وہ شیو شینا کو ممبئی اور کوم کنڈ میں مات دے سکتی ہے نارائن رانے شیو شینا کانگریس اور بھاجپا سبھی پارٹیوں میں رہ چکے ہیں ایسے میں ان سے زیادہ پختگی کی توقع کی جاتی ہے پھر وہ خود آئینی عہدے پر ہیں اس لئے دوسرے آئینی عہدے کے وقار کا بچاو¿ بھی کرنا چاہئے ۔ سوال یہ ہے بھی ہے کہ بیانوں کی بنیاد پر اگر مقدمے درج کئے جانے لگے اور گرفتاریاں ہونے لگیں تو کتنے سارے ممبرا سمبلی و ایم پی اور وزیر جیل میں ہونگے بلا شبہ ایک مثالی فیڈرل ڈھانچے کے لئے ضروری ہے کہ پارٹی لیڈر شپ اپنے اپنے لیڈروں پر نظر رکھیں اور لگام کسیں دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اس ہمام میں سبھی ننگے ہیں نیتا ایک دوسرے کو الٹی سیدھی کہنے سے نہیں کتراتے اور سیاسی بدلے اور رقابت کی کاروائیوں سے دیش کا فیڈرل ڈھانچہ اور ہماری لوک سبھا کمزور ہو رہی ہے یہ بات کتنی جلدی سیاسی پارٹیاں سمجھیں اتنا ہی ایسے ٹکراو¿ سے بچا جا سکے گا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!