پنجرے میں قید طوطے کو آزاد کریں!

سپریم کورٹ کے بعد اب مدراس ہائی کورٹ نے مرکزی جانچ بیورو (سی بی آئی)کو لیکر بڑا تبصرہ کیا ہے ہائی کورٹ نے منگل کو مرکزی حکومت سے کہا کہ وہ سرکار کے انتظامی کنٹرول کے بنا سی بی آئی کو اس کی مختاری یقینی کرنے کے لئے آئینی درجہ دینے والا قانون بنانے پر غور کرے اور یہ پنجرے میں بند طوطے کو رہا کرنے کی کوشش کے تحت سی بی آئی کے کام کاج میں بہتری لانے کے لئے عدالت کے ذریعے جاری ہدایت کا ایک حصہ تھا عدالت نے کہا کہ اپوزیشن کے مطابق سی بی آئی بھاجپا کی قیادت والی مرکزی سرکار کے ہاتھوںمیں ایک سیاسی ہتھیار بن گئی ہے جسے آزاد کرانے کی ضرورت ہے ۔ عدالت نے کہا سی بی آئی کو کنٹرولر و آڈیٹر(کیگ)اور چناو¿ کمیشن کی طرح مختار ہونی چاہئے جو صرف پارلیمنٹ کے طئیں جواب دہ ہے بنچ نے کہا عدالت جب بھی کوئی سنگین معاملہ ایجنسی کو سونپنا چاہتی ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتی ہے کیونکہ جانچ کے لئے اس کے پاس وسائل اور مین پاور کی کمی ہے ہائی کورٹ مدوروئی بنچ کے جسٹس این وی روباکرن اور جسٹس گنگولی پر مشتمل بنچ اور عدالت تمل ناڈو رام ناتھن پورم ضلع کے عرضی گزاروں کی ایک عرضی پر سماعت کر رہی تھی جس میں 3سو کروڑ روپئے کے چٹ فنڈ گھوٹالے کی جانچ سی بی آئی کو سونپنے کی مانگ کی گئی تھی جج صاحبان نے کہا وجہ یہ ہے کہ وسائل اور مین پاور کی کمی کی وجہ سے اس کی کمزوری بار بار دوہرائی جاتی ہے موجودہ سسٹم میں تبدیلی لانے کی بات کرتے ہوئے بارہ نقات کی ہدایت میں عدالت نے کہا کہ یہ حکم پنجرے میں بند طوطے(سی بی آئی )کو چھڑانے کی کوشش ہے ۔ عدالت نے سی بی آئی سے سائبر فورنسک اور مالی کمپٹرول آڈٹر جنرل کے ماہرین کی مستقل طورسے بھرتی کے لئے چھ ہفتے کے اندر ایک پالیسی بنانے کو کہا تاکہ اس کے سبھی محکموں کو معاملہ در معاملہ کی بنیاد پر ایکسپرٹ ہونے کے بجائے بلکہ وقف ہو سکیں عدالت نے کہا کہ ایجنسی کی مختاری تبھی یقینی ہوگی جب اسے آئینی درجہ دیا جائے گا ۔ عدالت نے کہ بھارت سرکار کو زیادہ اختیارات یا دائر اختیار کے ساتھ آئینی درجہ دینے والے الگ ایکٹ پر غور کرنے اور فیصلہ لینے کی ہدایت دی جاتی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟