روس ہمیشہ بھارت کا بھروسے مند دوست رہا ہے

عالمی پس منظر میں وزیر اعظم نریندر مودی کا روس دورہ اہمیت سے کم نہیں مانا جاسکتا۔ آج نریندر مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوتن اس وقت دنیا کے سب سے دو بڑے قد آور لیڈر ہیں جنہوں نے اپنی کڑی محنت اور پختہ عزم کا کئی بار ثبوت دیا ہے۔ اس لحاظ سے وزیر اعظم مودی نے صحیح ہی کہا ہے کہ میں اور پوتن ایک جیسے ہیں۔ پی ایم نے پوتن اور اپنے سیاسی سفر کے درمیان یکسانیت بتاتے ہوئے کہا کہ پوتن نے بھی 2000 ء میں کمان سنبھالی تھی اور میں نے2001 ء میں۔ میں نے پی ایم اٹل بہاری واجپئی کے ڈیلیگیشن کا حصہ بن کر بطور وزیر اعلی روس کا دورہ کیا تھا وہ میری اور پوتن کے درمیان پہلی ملاقات تھی۔ جب بھی میں روس جاتا ہوں میرے دماغ میں یہ خیال آتا ہے کہ میں نے اس دورہ میں تھوڑی دیر کردی۔ دوسرا مجھ میں تھوڑی ہچکچاہٹ بھی ہے۔ مگر میں اس بات سے بھی خوش ہوں کہ ایک دوست کے گھر جارہا ہوں۔ مشکل گھڑی میں ملی روس کی سپورٹ پر مودی کا کہنا ہے کہ بھارت کو کبھی یہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں پڑی کہ روس کچھ معاملوں پر ہمیں حمایت دے گا یا نہیں۔ روس بھارت کا ایک مضبوط اور بھروسے مند دوست رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان صحیح معنوں میں فوجی سانجھے داری ہے۔ بھارت اور روس کے درمیان ثقافتی رشتوں کی لمبی تاریخ رہی ہے۔ روس مشکلات کے وقت ہمیشہ بھارت کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ نیوز ایجنسی’عطرطاس‘ نے پوتن کے حوالے سے کہا کہ باہمی رشتے سبھی میدانوں میں بڑھ رہے ہیں جس میں عالمی سیاست ،اقتصادی ، انسانی اہمیت کے حامل سیکٹر شامل ہیں۔ تلخ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ سوویت یونین کے بکھراؤ کے بعد امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور دیش بن گیا۔ امریکہ کی عادت ہے کہ وہ عالمی سیاست میں اپنا دبدبہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ کبھی کبھی بھارت بھی اس کے زیر اثر آجاتا ہے لیکن اپنے مفادات کے مطابق عالمی سیاست کو چلانا چاہتا ہے۔ بھارت پر وہ اسی حکمت عملی کے تحت ناجائز و جائز دباؤ ڈالتا رہتا ہے۔ امریکی برتریت کو توڑنے کا صحیح طریقے ہے روس اور بھارت و جاپان قریب آئیں اور مشترکہ خارجہ پالیسی اپنائیں۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ولادیمیر پوتن پہلے ایسے روسی صدر بنے ہیں جو اپنی بات رکھنے سے نہیں کتراتے۔ انہوں نے مشرقی وسطیٰ میں شام اور بشرالاسد کو لیکر امریکہ کو اس کی حکمت عملی کی حمایت کرنے پر مجبور کیا۔ امریکہ میں صدر براک اوبامہ کا عہد ختم ہونے والا ہے ، نئے صدر کے چناؤ کے بعد پتہ چلے گا کہ امریکہ کیسے بین الاقوامی سیاست کرتا ہے۔ اس لحاظ سے مودی کا روس دورہ خاص اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے۔ ہم پی ایم مودی کو اس کامیاب روس دورہ پر مبارکباد دینا چاہتے ہیں۔ دونوں دیشوں کے آپسی رشتوں میں نئی مضبوطی آئے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟