بدمعاشوں کا بڑھتا حوصلہ: کورٹ میں فائرنگ

آج کل ان مافیہ اور بدمعاشوں کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے ہیں کہ یہ اب عدالت کے اندر بھی گولہ باری سے نہیں ڈرتے۔راجدھانی میں اپنی نوعیت کی پہلی واردات میں مجسٹریٹ کے سامنے قتل ہوگیا۔گھناؤنے جرائم میں لڑکوں کو بالغوں کی طرح سزا دینے کے لئے پارلیمنٹ میں قانون پاس ہونے کے ٹھیک24 گھنٹے بعد 4 نابالغوں نے اس ہمت بھری واردات کو کڑکڑ ڈوما عدالت میں انجام دے ڈالا۔ بدھ کے روز کڑکڑ ڈوما کورٹ میں رونگٹے کھڑے کردینے والی اس واردات میں ہتھیاروں سے مسلح بدمعاشوں نے کٹہرے میں کھڑے ایک بدمعاش پر گولیوں کی بوچھار کردی۔ بدمعاش کو بچانے کے چکر میں دہلی پولیس کا ایک ہیڈ کانسٹیبل رام کنور مینا شہید ہوگیا۔واردات کے بعد ملزمان نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن دو بدمعاشوں کو کورٹ روم میں ہی لوگوں نے دبوچ لیا اور پیٹ پیٹ کر ادھ مرا کردیا۔ دیگر دو بدمعاشوں کو وکیلوں نے گھیر کر پولیس کے حوالے کردیا۔ بتایا جاتا ہے کہ چاروں ملزم نابالغ ہیں۔ کڑکڑ ڈوما کورٹ کی چھٹی منزل پر73 نمبر کورٹ کے میٹرو پولیٹن کرمنل مجسٹریٹ سنیل گپتا کی عدالت میں بدنام زمانہ بدمعاش عرفان عرف چھینو پہلوان کی پیشی تھی۔ اس درمیان ایک لڑکا وہیں پر کھڑا رہا ، تینوں نے عرفان کی طرف تابڑ توڑ گولیاں برسانی شروع کردی۔ چھینو نے خود کو بچانے کے لئے مینا کو ڈھال بنا لیا۔ مینا کے پانچ گولیاں لگیں جبکہ خود چھینو کو تین گولیاں لگیں۔ اس دوران ایک گولی میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ سنیل گپتا کے پاس سے بھی گزرنی اور وہ کورٹ سے بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔کچھ سال پہلے انبالہ میں دھماکو سامان سے لدی ایک سرکار برآمد ہوئی تھی، چھان بین سے پتہ چلا کہ کار سے کڑکڑ ڈوما کورٹ کی بلڈنگ اڑانے کی سازش تھی۔ سازش تب متعلقہ عدالت میں چل رہے سکھ دنگوں سے جڑی تھی۔تب عدالت کی سکیورٹی بیحد سخت کی گئی تھی۔ جگہ جگہ بنکر بناکر کمانڈو تعینات کئے گئے۔ چپے چپے پر سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے۔ ڈی سی پی سطح کے افسر کو کورٹ کی سکیورٹی کا انچارج بنایا گیا۔ کورٹ کے لئے پولیس چوکی بھی ہے اس کے باوجود کورٹ میں ہتھیار جانا، فائرنگ اور قتل کی واردات سے عدالتوں کی حفاظت پر کئی سنگین سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ کورٹ کے باہر مضبوط سکیورٹی انتظام ہونا چاہئے، کورٹ کے اندر جو بھی پولیس والا و دیگر ملازم ہوتے ہیں انہیں چست رہنا پڑے گا کیونکہ ان کی زیادہ توجہ مقدمات میں ملائی کاٹنے پر ہوتی ہے۔ان سے سکیورٹی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ان کی جگہ ایسے ملازمین کی تعیناتی ہونی چاہئے جو اپنی ڈیوٹی ذمہ داری اور چستی کے ساتھ نبھائیں۔ اس کے ساتھ ہی پولیس چوکی کا اسٹاف بھی بڑھانے کی سخت ضرورت ہے۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اب بدمعاشوں کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے ہیں کہ انہیں وردی (یونیفارم) کا بھی خوف نہیں رہا۔ نہ ہی عدالت میں مجسٹریٹ کا۔ تکلیف دہ پہلویہ بھی ہے کہ حملہ آور نابالغ تھے۔ شکر ہے مجسٹریٹ صاحب اس حملے میں بچ گئے۔ ہم شہید تیسری بٹالین کے کانسٹیبل رام کنور مینا کی شہادت کو سلام کرتے ہیں اور ان کے خاندان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟