استقبال ہے2016 ء کا سب کیلئے خوشحال ہو

سال2015ء کا اختتام ہوا اور نئے سال 2016ء کا آغاز ہوا۔ اچھی خبر یہ ہے کہ نئے سال میں موسم بھی ہمارا ساتھ دے گا۔ نئے سال کے جشن میں لگے لوگوں کو ٹھنڈ زیادہ نہیں ستائے گی۔ خاص بات یہ ہے کہ موسم ان لوگوں کے لئے راحت لیکر آئے گا جو ایک جنوری کو گھر سے باہر گھومنے پھرنے جائیں گے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق موسم میں پچھلے 2-3 دنوں سے تبدیلی نظر آرہی ہے۔ ابھی ایک ہفتے تک موسم خوشگوار بنا رہے گا۔ اس کے نتیجے میں نئے سال کے جشن میں کہرا، آلودگی، بارش خلل نہیں ڈال پائیں گے۔31 دسمبر کی رات کو دہلی میں ٹھنڈ بہت زیادہ نہیں ہوگی۔درجہ حرات 7سے9 ڈگری سیلسیس رہنے کا اندازہ ہے۔ ایک وارننگ بھی ہے ، جشن مناتے وقت شراب پی کر گاڑی نہ چلائیں کیونکہ اگر پولیس نے انہیں پکڑ لیا تو نہ صرف ان کا ڈرائیوننگ لائسنس ہی ضبط ہوگا بلکہ انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی جانا پڑ سکتا ہے۔ گزشتہ برسوں سے سبق لے کر اس بار دہلی ٹریفک پولیس زیادہ سختی برتے گی۔پیٹرولنگ بائیک سمیت 2 ہزار پولیس جوان خاص بڑے بازاروں اور مقامات پر تعینات ہوں گے۔ کناٹ پلیس میں 31 دسمبر کی رات ساڑھے آٹھ بجے کے بعد گاڑیوں پرپابندی رہی۔ یہاں اگر لوگوں کو آنا ہی ہے تو بہتر ہوگا کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ سے آئیں۔ ویسے تو 2015ء میں بہت سے اہم واقعات رونماہوئے لیکن یہ برس صحافی برادری کے لئے بہت بدنصیب رہا۔ کیونکہ دنیا بھر میں سال2015ء کے دوران کل 110 صحافیوں کا قتل ہوا۔ ایک میڈیا واچ ڈاگ نے منگل کو یہ چونکانے والی رپورٹ جاری کی ہے۔نگرانی گروپ نے اپنے سالانہ لیکھا جوکھا میں کہا کہ اس سے 67 صحافی اپنی ڈیوٹی کرتے ہوئے مارے گئے جبکہ 43 کے مرنے کے اسباب صاف نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ27 غیر پیشہ ور سٹی زن جرنلسٹ اور 7 دیگر میڈیا ملازم مارے گئے۔ رپورٹ بیان کرتی ہے کہ زیادہ تر صحافیوں کا قتل ان کے خلاف منصوبہ بند طریقے سے تشدد کا نتیجہ تھے اور یہ میڈیا ملازمین کی ڈیفنس اقدامات کی ناکامی ظاہر کرتے ہیں۔وہیں2015ء میں اب تک بھارت میں 9 صحافیوں کا قتل ہوچکا ہے۔ رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ ان میں سے کچھ منظم کرائم اور سیاستدانوں کے ساتھ ان کی وابستگی کے بارے میں رپورٹنگ کرتے تھے۔ 5 صحافیوں کو ان کے کام کے دوران مارا گیا جبکہ دیگر کے مارے جانے کی وجہ پتہ نہیں چل پائی۔ ان کے قتل اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ایشیا میں میڈیا ملازمین کے لئے بھارت سب سے خطرناک ملک بن گیا ہے۔ یہ اس معاملے میں کہ پاکستان اور افغانستان سے بھی آگے ہے۔ صحافیوں کے خلاف تشدد کے معاملے میں سختی برتنے میں ہندوستانی سکیورٹی اتھارٹی ناکام رہی ہے۔آر ایس ایف نے حکومت ہند سے اخباروں کی حفاظر کے لئے ایک ٹھونس قومی اسکیم نافذ کرنے کی درخواست کی ہے۔ رپورٹ صحافیوں کے خلاف مظالم کو انجام دینے کے لئے خاص طور پر غیر ریاستی گروپ پر روشنی ڈالتی ہے جو اسلامک اسٹیٹ جیسے جہادی ہیں۔ آر ایس ایف نے 2014ء میں کہا تھا کہ دو تہائی صحافی جنگی علاقوں میں مارے گئے جبکہ 2015ء میں یہ ایک دم بالکل برعکس ہے اور یہ ادارہ کہتا ہے کہ دو تہائی صحافی پرامن ممالک میں بھی مارے گئے ہیں۔ اس معاملے میں ہمارا پڑوسی ملک بھی کم نہیں رہا ہے۔ پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے مطابق سال2001 ء سے اب تک 71 اخبار نویس و میڈیا ملازم اپنی ذمہ داری نبھانے کے دوران زندگی گنوا بیٹھے۔ ان میں سے47 کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔ ان کا قتل اس لئے ہوا کیونکہ وہ ایمانداری سے اپنا کام کررہے تھے، وہیں باقی اخبار نویسوں کے قتل کے پیچھے یہ وجہ تھا کہ وہ بڑے ہی خطرناک ایوینٹس کی رپورٹنگ کی ذمہ داریوں پر تھے۔ جو رپورٹ آئی ہے وہ بتاتی ہے کہ اخبار نویسوں کو8 چیزوں سے خطرہ ہے۔ دہشت گردی، سیاسی گٹھ جوڑ، مذہبی جماعت، فرقہ وارانہ گروپ، قبائلی گروپ، سرمایہ دار لوگ، تاناشاہ و قاعدے قانون لاگو کرنے والی ایجنسی ان میں شامل ہیں۔ قتل بے وجہ، گرفتاری، اغوا کرنا و ان پر مقدمہ چلانا، اخبار نویسوں کو خطرناک علاقوں میں جانا پڑتا ہے۔ جانکاری اکٹھا کرنے کے لئے اگر پاکستان میں صحافیوں کو جو خطرہ ہے وہ دیگر پیشہ ور لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور یہ پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ویسے تو پاکستان، شام ، عراق، افغانستان میں بھی صحافیوں کے لئے خطرہ کم نہیں ہے لیکن تلخ پہلو یہ ہے کہ وہاں ایک ہی دشمن ہے یہاں تو کئی دشمنوں کی ٹولیاں موجود ہیں۔ یا یوں کہیں کہ میڈیا کی آزادی ، طاقتور نظریہ بنانے یا اس کو فروغ دینے والا بتایا جاتاہے لیکن اصلی حالت یہ نہیں ہے۔ پی پی ایف کا کہنا ہے آزادی میڈیا جمہوریت کے لئے ضروری ہے، کیونکہ یہ نظام میں شفافیت و جوابدہی لاتا ہے اور ان کا ہونا اقتصادی بہتری کی پہلی شرط ہے۔ آخر میں میں سبھی قارئین کو آنے والی برس کی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور پرارتھنا کرتا ہوں کہ سال2016ء سب کے لئے خوشحالی کا ضامن ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟