ہر سال نابالغ بچے بچیاں ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ ہوتے ہیں

اپنوں کی تلاش میں قریب20 برسوں کے بعد گیتا بھارت لوٹی تو دہلی سے اندور تک خوشیاں منائی جانیں لگیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی سمیت وزیر اعلی اروندکیجریوال نے نہ صرف گیتا بلکہ اس کے ساتھ آئے ایدی فاؤنڈیشن کے ممبران سے گیتا کے پاکستان میں رہائش کے بارے میں تفصیلات سنیں۔ گیتا تو خوش نصیب ہے اور ہائی پروفائل کیس ہونے کے سبب اسے اپنے رشتے داروں سے ملوانے کیلئے بھارت سرکار و پورا دیش ساتھ کھڑا ہوگیالیکن آج بھی دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسی سینکڑوں گیتا گمشدگی کے اندھیروں میں کھوئی ہوئی ہیں۔ ان کی کوئی خبر لینے والا نہیں ہے۔ خاندان در در کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں اور ڈھونڈنے میں لگے ہیں۔ ایک رضاکار تنظیم ’نو سرشٹھی‘ نے بچوں کی گمشدگی سے متعلق معلومات کیلئے اطلاعات حق (آرٹی آئی) کا سہارا لیا ہے۔جواب میں دہلی پولیس نے بتایا کہ پچھلے برس 1 جنوری سے31 دسمبر 2014ء کے درمیان 18 برس کی عمر تک کے 3409 گمشدگی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد لڑکیوں کی رہی ہے۔ گذشتہ برس2050 لڑکیاں لا پتہ ہوئی ہیں جبکہ 1359 لڑکے لاپتہ ہوئے۔بچوں کی گمشدگی کے معاملے میں دوسرے تیسرے اور چوتھے نمبر پر باہری اور مشرقی دہلی اضلاع رہے جہاں سلسلہ وار 418 ،400 اور 334 نابالغ بچیاں لاپتہ ہوئیں۔راحت کی بات یہ ہے کہ پولیس نے 1164 لڑکیوں، 843 لڑکوں کو برآمد کرنے میں کامیابی پائی لیکن ابھی بھی 886 لڑکیاں اور 516 لڑکے سمیت 1402 نابالغ بچے بچیاں لاپتہ ہیں۔ان کی تلاش میں دہلی پولیس نے ’’آپریشن ملاپ‘‘ سے لیکر کئی دیگر مہم چلائی ہیں۔ حالانکہ آر ٹی آئی میں صرف7 اضلاع میں نابالغ بچوں کی گمشدگی سے متعلق اعدادو شمار دئے گئے ہیں۔ سماجی رضاکار تنظیم نے بتایا کہ ساؤتھ دہلی سمیت کئی اضلاع نے کوئی جواب نہیں دیا۔ویسٹ دہلی میں گزشتہ برس گمشدہ 323 لڑکیوں کا اب تک کوئی پتہ نہیں چلا۔اسی طرح باہری دہلی میں 256 ، ساؤتھ ایسٹ دہلی میں 198، مشرقی دہلی 146، ساؤتھ ویسٹ میں 178 اور نارتھ دہلی 92 ، سینٹرل دہلی سے21 لاپتہ لڑکیوں کا کوئی سراغ نہیں لگ پایا۔ آج دیش میں کئی ایسے گروہ ہیں جو نابالغ لڑکے لڑکیوں کا اغوا کرلیتے ہیں۔ لڑکیوں کو یا تو بیچ دیا جاتا ہے یا پھر انہیں جسم فروشی میں جھونک دیا جاتا ہے، لڑکوں کو جرائم کی دنیا میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ یہ گروہ ہر وقت ایسے بچوں کی تلاش میں گھومتے رہتے ہیں۔ جہاں کہیں بھی بچوں کو اکیلا پاتے ہیں اٹھا لے جاتے ہیں۔ کچھ گروہ چھوٹے بچوں کو ٹافی، مٹھائی و کھلونوں کا لالچ دے کر اٹھا لے جاتے ہیں۔ پولیس تو اپنا کام کررہی ہے لیکن ماں باپ، سماج کو بھی زیادہ بیدار ہونا پڑے گا۔ بچے کہاں ہیں، کہاں کھیل رہے ہیں، انجانے لوگوں کے ساتھ کہیں بھی جانے سے روکا جانا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟