لشکر کی خودکش حملہ آور تھی عشرت جہاں

2004 میں عشرت جہاں مڈبھیڑ معاملے کے بعد جو بھی تنازعہ شروع ہوا تھا وہ آج تک چلتا آرہا ہے۔ دیش کے تمام خودساختہ دانشور (فرضی صحافی) اسے فرضی انکاؤنٹر بتانے پر تلے ہوئے تھے اور آج بھی ہیں۔ وہ یہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ ممبئی سے لگے علاقے ٹھانے اور مندرا کی باشندہ عشرت جہاں 2004 کو جاوید شیخ عرف پرگیش پلئی اور پاکستان کے دو لڑکوں امجد علی و ذیشان جوہر عبدالغنی کے ساتھ احمد آباد گھومنے آئی تھی اور پولیس نے ان چاروں کو احمد آباد کے باہری علاقے میں ایک فرضی مڈ بھیڑ کرکے مار ڈالا تھا۔ اس کے خاندان والوں نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ طالبہ تھی۔ عشرت جہاں کی ماں شمیمہ کوثر نے گجرات آئی کورٹ میں عرضی دائر کی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ اس کی بیٹی جاوید شیخ کے عطر کے کاروبار میں سیلس گرل کے طور پر کام کیا کرتی تھی جبکہ گجرات پولیس نے کہا تھا کہ احمد آباد میں مارے گئے دہشت گرد ریاست کے اس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی پر حملہ کرنے کے ارادے سے وہاں پہنچے تھے۔
عشرت جہاں کیس پر گجرات کے اس وقت کے وزیر داخلہ امت شاہ اور گجرات پولیس کے کردار پر سوال اٹھے تھے۔ لشکر طیبہ نے بھی عشرت جہاں کو اپنی ویب سائٹ پر شہید کر درجہ دیا تھا۔ اب ممبئی پر26/11 آتنکی حملے کے ماسٹر مائنڈ لشکر طیبہ کے آتنکی ڈیوڈ ہیڈلی نے عشرت کے بارے میں بڑا خلاصہ کرکے اس کی تصدیق کی ہے کہ عشرت جہاں لشکر طیبہ کی آتنکی تھی۔ غور طلب ہے کہ ممبئی کی ایک عدالت نے ڈیوڈ ہیڈلی کو بدھوار کو معافی دے دی تھی اور اسے 26/11 ممبئی آتنکی حملے کے معاملے میں سرکاری گواہ بنایا ہے۔ ہیڈلی نے قومی جانچ ایجنسی (این آئی اے ) کو بتایا کہ2004 میں احمد آباد میں ماری گئی ممبئی کی لڑکی عشرت جہاں لشکرطیبہ کی فدائی حملہ آور تھی۔ اس خلاصے سے گجرات پولیس کے اس دعوے کی تصدیق ہوئی ہے جس میں عشرت کو دہشت گرد قراردیا تھا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ہیڈلی نے امریکہ میں یہ اطلاع این آئی اے اور محکمہ قانون کی چار پارلیمانی ٹیم کے ساتھ شیئر کی ہے۔ ہیڈلی نے بتایا تھا کہ عشرت جہاں لشکر کی فدائی دستے کی ممبر تھی جسے لشکر کے مزمل نام کے دہشت گرد نے اپنے دستے میں شامل کیا تھا۔عشرت جہاں کے انکاؤنٹر کو لیکر دیش میں بڑا تنازعہ چھڑ گیا تھا ہیڈلی کے اس انکشاف سے اس اشو پر چل رہی سیاست پر ڈراپ سین ہونا چاہئے لیکن اس سے شبہ ہے کہ یہ خود ساختہ سیکولر لیڈر اس تنازعے کو ختم نہیں ہونے دیں گے۔ یہ تو اچھی بات ہے کہ یہ بات ڈیوڈ ہیڈلی نے کہی ہے جسے اس معاملے میں غیر جانبدار مانا جانا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟