مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر روک

جب سے اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) نے پیرس اور اس کے بعد امریکہ کے شہر کیلیفورنیا میں جو دہشت ناک واقعہ ہوا اس کے بعد سے امریکہ میں ایک ایسا طوفان سا آگیا ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ایک طرف امریکی صدر براک اوبامہ ہیں تو دوسری طرف امریکہ کے صدر عہدے کیلئے ری پبلکن پارٹی کے امیدواربننے کے مضبوط دعویدار ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔
امریکی عوام اوبامہ کہ آئی ایس سے مقابلہ کرنے کی قوت ارادی پر شبہ ظاہر کررہے ہیں۔ صدر سے جس سختی کی امید کی جارہی ہے وہ عوام کو دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ وہاں کے ایک مسلح سروس کے افسر نے کہا کہ آئی ایس سے نمٹنے کے لئے سخت حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جس پر اوبامہ نے کچھ نہیں کہا۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کمپین کے دوران دھماکو بیان دیتے ہوئے کیلیفورنیا قتل عام کے بعد امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پوری طرح سے روک لگانے کی مانگ کرڈالی ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا جب تک ہمارے دیش کے نمائندے یہ نہیں پتہ لگا لیتے کہ کیا کچھ چل رہا ہے، تب تک امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پوری طرح سے روک لگا دی جائے۔ ان کا یہ اشتعال انگیز بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب محض ایک دن پہلے ہی اوبامہ نے دیش میں اینٹری کیلئے مذہبی جانچوں کو خارج کرنے کی بات کہی تھی اور ٹرمپ نے ری پبلکن پارٹی کے امیدواروں کے دعویداروں کے ساتھ مل کر کٹر پسند اسلام کو خاص خطرے کی شکل میں نشاندہی نہ کرنے پر اوبامہ کی زبردست تنقید کی ہے۔ 9/11 کے بعد طالبان کے صفائے کیلئے جس طرح امریکہ نے افغانستان اور پھر عراق پر حملے کئے ان سے القاعدہ تو ختم نہیں ہوا لیکن دہشت گردی بڑھتی چلی گئی اور آج اس نے سب سے خطرناک شکل میں آئی ایس کی شکل اختیار کرلی ہے۔ امریکہ کو دہشت گردی سے تبھی فکر ہوتی ہے جب امریکی زمین پر کوئی آتنکی واقع ہوتا ہے۔ ان اسباب پر تو وہ دھیان نہیں دیتا جس کی وجہ سے حالات اتنے بگڑے اور بگڑتے جارہے ہیں۔ سارا غصہ مسلمانوں پر نکال دیتا ہے۔ مٹھی بھر دہشت گردوں کی وجہ سے پورے مذہب کو قصوروار نہیں مانا جاسکتا۔
بدقسمتی تو یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مانگ امریکہ میں زور پکڑتی جارہی ہی۔ پیرس میں بھی مساجد میں پولیس کے چھاپے شروع ہوگئے ہیں۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ مسلم مذہب کے پیشوا یا یوں کہئے علماء مولانا دہشت گردی کے خلاف زور شور سے آوازیں اٹھائیں۔ ان کے ہمدردوں پر سخت نظر رکھیں، ان پر سختی کی جائے ناکہ پورے فرقے کو قصوروارٹھہرایا جائے یا اسلام کو ہی خطرہ بتایا جائے۔ اگر ایسا ماحول بنتا ہے تو بلا شبہ آئی ایس کے اثر میں آنے والے لڑکوں کو صحیح راستے پر لانے میں بھی کافی مدد ملے گی۔ اسلام کو بدنام ہونے سے بچانے کا خاص کام اسلامک مذہبی پیشواؤں کا ہے ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟