’نربھیہ‘ کانڈ کے تازہ ہوگئے زخم

جیوتی سنگھ عرف نربھیہ کانڈ ساؤتھ دہلی میں آج سے تین سال دو دن پہلے 16 دسمبر 2012ء کو رونما ہوا تھا۔ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ چلتی بس میں اجتماعی آبروریزی کا شکار ہوئی ’نربھیہ ‘ کے بالغ ملزمان کو بڑی عدالت کے ذریعے سزا دئے جانے پر بھی اب کبھی بھی کوئی بحث نہیں سنائی دیتی۔ بہرحال اس گھناؤنے غیر انسانی کانڈ کا ماسٹر مائنڈ نابالغ مجرم ضرور خبروں میں ہے۔ 16 دسمبر کے بعد بھڑکی تحریک اور تب سرکار اور عدالت کے رخ سے لگا تھا کہ اب تو کچھ صورت بدلے گی لیکن دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ نربھیہ کے ساتھ کی گئی اجتماعی حیوانیت اور بربریت آمیز آبروریزی سانحہ سن کر خوف تاری کردینے والی یادیں ابھی لوگوں کے ذہن سے دور نہیں ہوئیں تھیں کہ تین دن میں راجدھانی میں دو معصوموں کو حیوانیت کا شکار بنائے جانے کے واقعہ نے پھر وہ زخم تازہ کردیا ہے کہ جوئنائل عدالت کے قواعد کے مطابق اطفال اصلاح گھر میں رکھے جانے کے اس ماسٹر مائنڈ نابالغ کی تین سال کی میعاد پوری ہونے والی ہے۔ اسے اگلے ایتوار کو رہا کردیا جائے گا لیکن مرکزی سرکار اس کی ابھی رہائی کے حق میں نہیں ہے۔سرکار نہیں چاہتی کہ آدھے ادھورے انتظام کے درمیان اس خطرناک مجرم کو سماج میں چھوڑدیا جائے۔ وسنت وہار کے اس قتل کانڈ کے معاملے میں قصوروار لڑکے کی رہائی کے معاملے میں دہلی ہائی کورٹ نے پیر کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا اور اس سے پہلے وزارت داخلہ نے ہائی کورٹ کو ایک سیل بمہر لفافے میں نابالغ سے منسلک خفیہ بیورو (آئی بی) کی رپورٹ کورٹ میں پیش کی ہے۔مرکز نے دلیل دی کہ باز آبادکاری کیلئے ابھی تک کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں بنا ہے اور اس کے لئے تیار منصوبے میں کئی اہم باتیں ندارد ہیں۔ رہائی سے پہلے ان خامیوں کو پورا کیا جانا ضروری ہے۔ نابالغ کی رہائی کا احتجاج کررہے بھاجپا نیتا اور عرضی گزار ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے چیف جسٹس جی۔ روہنی اور جسٹس جینت ناتھ کی بنچ سے کہا کہ اس معاملے میں ایسا حکم پاس کیا جائے جو نظیر بنے۔ انہوں نے کہا بھلے ہی نابالغ اصلاح گھر میں زیادہ سے زیادہ تین سال وقت گزار چکا ہے لیکن قانون کے تحت اسے دو سال تک رکھا جاسکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ آئی بی و بازآبادکاری کو لیکر تیار رپورٹ پر غور کرنے کے بعد ہی جلد ہی اس معاملے پر مفصل فیصلہ دیں گے۔ دوسری طرف حکومت نے لوک سبھا میں تشویش ظاہر کی کہ بیتے 10 سال میں لڑکوں کے جرائم میں ملوث ہونے کے واقعات میں تقریباً 50 فیصدی اضافہ ہوا ہے۔ ریاستوں اور مرکزوں سے اکھٹے کئے گئے اعدادو شمار کے مطابق2005ء میں جہاں 25601 لڑکیوں سے جرائم ہوئے وہیں2014 میں یہ تعداد بڑھ کر38586 ہوگئی ہے۔ ایک بڑا باعث تشویش سوال یہ بھی ہے کہ جن جرائم پیشہ لڑکوں کو رہا کیا جاتا ہے انہیں کھلے سماج میں کس شکل میں سونپا جاتا ہے جب نربھیہ معاملے میں اتنی خامیاں چھوڑ دی گئی ہوں تو باقی معاملوں میں اس کا کیا رویہ ہوگا، اس کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟