جب شرد پوار کے سپنے کو سونیا نے چکنا چور کردیا!
عام طور پر مانا جاتا ہے کہ مراٹھا لیڈر شرد پوار ایک بہت شاطر سیاستداں ہیں۔ وہ کب کون سی چال چل دیں، کب کیا کہہ دیں کوئی نہیں بتا سکتا لیکن ایسے شاطر لیڈر کو بھی سونیا گاندھی نے مات دے دی ہے۔ شرد پوار نے اپنی کتاب ’’لائف آن مائی ٹرمس ان گراس روٹ اینڈ کوریڈورس آف پاور‘ ‘میں شرد بابو نے چونکانے والا سنسنی خیز انکشاف کیا ہے۔ شرد پوار نے دعوی کیا ہے 10 جن پتھ کے خودساختہ وفاداروں نے سونیا گاندھی کو اس بات کیلئے رضامند کیا تھا کہ 1991ء میں شرد پوار کے بجائے پی وی نرسمہاراؤ کو وزیر اعظم بنایا جائے کیونکہ گاندھی خاندان کسی ایسے شخص کو وزیر اعظم نہیں بنانا چاہتا تھا جو آزاد خیال رکھتا ہو۔ راشٹروادی کانگریس پارٹی کے صدر نے کہا وفاداروں میں سورگیہ ارجن سنگھ خودبھی وزیر اعظم کے عہدے کے دعویدار تھے اور انہوں نے پوار کے بجائے راؤ کو چننے کا فیصلہ لینے میں سونیا گاندھی کو راضی کرنے میں چالاکی سے چال چلی۔ راؤ کی کیبنٹ میں پوار وزیر دفاع تھے۔ پوار کی کتاب کو ان کی75 ویں سالگرہ تقریب میں باقاعدہ طور سے سونیا گاندھی، وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر اور نائب صدر کی موجودگی میں ریلیز کیا گیا ۔ انہوں نے کہا بڑے عہدے کے لئے ان کے نام پر غور نہ صرف مہاراشٹر میں بلکہ پارٹی کے اندر بھی چل رہا تھا۔ وہ کافی ہوشیار تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ کافی کچھ جنتا پر منحصر کرتا ہے۔ جہاں سونیا گاندھی رہتی ہیں اپنی کتاب میں پوار نے لکھا ہے کہ پی وی نرسمہاراؤ بھلے ہی سینئر لیڈر تھے لیکن چناؤ سے پہلے صحت کی وجہ سے وہ قومی اسٹیم کی سیاست سے الگ تھے۔ ان کے لمبے تجربے کو دیکھتے ہوئے انہیں واپس لانے کے مشورے دئے گئے۔ پوار نے لکھا کہ سونیا گاندھی کے وفاداروں نے سونیا گاندھی کو یقین دلایا کہ نرسمہاراؤ کی حمایت کرنا ٹھیک رہے گا کیونکہ وہ بوڑھے ہیں اور ان کی صحت بھی ٹھیک نہیں ہے اس لئے پوار کے بجائے راؤ کو چنا گیا جنہیں 35 سے زیادہ ووٹوں کی بڑھت ملی۔ شرد پوار نے ایک دوسرے باب میں 1977ء میں اٹل بہاری سرکار کے خلاف عدم اعتمادتحریک پاس ہونے کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا ہے۔ کتاب سے صاف جھلکتا ہے کہ شرد پوار کے وزیر اعظم بننے کے سپنے کو سونیا گاندھی نے بھانجی مار دی اور ان کا ارمان پورا ہوتے ہوتے رہ گیا۔کہتے ہیں نہ کہ سیاست میں نہ کوئی کسی کا سگا نہیں، دوست کب دشمن بن جائے کہا نہیں جاسکتا۔ ذاتی مفاد ہی بالاتر ہوتا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں