سونیا ۔راہل گاندھی عدالت میں حاضر ہوں

آل انڈیا کانگریس کمیٹی سے وابستہ انگریزی اخبار ’’نیشنل ہیرالڈ‘‘ کی اربوں روپے کی جائیداد ہتھیانے کے معاملے میں کانگریس صدر سونیا گاندھی اور نائب راہل گاندھی ،خزانچی موتی لال ووہرا، آسکر فرنانڈیز سمیت7 لوگوں کی مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔ ہائی کورٹ نے ان سبھی کے خلاف ٹرائیل کورٹ کے ذریعے جاری سمن کو صحیح مانتے ہوئے ان کی عرضی خارج کردی۔ عدالت نے صاف کیا کہ سبھی ایک قومی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہیں اور ان پر لگے جرائم کے الزامات کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے ان کے مشتبہ برتاؤ کی سچائی کا پتہ لگانے کے لئے جانچ ضروری ہے۔ معاملے کی سماعت منگلوار کو پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے طے کی تھی۔ عدالت میں سونیا اور راہل گاندھی کی طرف سے وکیل پیش ہوئے اور انہوں نے منگلوار کو چھوٹ دینے کی عرضی داخل کی تھی ، عدالت نے اسے قبول کرلیا ہے۔ اب عدالت نے تمام ملزمان کو19 دسمبر کو شخصی طور پر پیش ہونے کی ہدایت دی ہے، جسے کانگریس نیتاؤں کے وکیلوں نے منظور کرلیا ہے اور عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ19 دسمبر دوپہر3 بجے سبھی ملزمان عدالت میں پیش ہوں گے۔ نیشنل ہیرالڈ کو شائع کرنے والی کمپنی ’دی ایسوسی ایٹڈ جرنل لمیٹڈ‘ کا قیام 1938 ء میں ہوا تھا۔ دیش کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے ذریعے یہ اخبار شروع کیا گیا تھا۔ یہ اکتوبر 2008ء میں بند ہوگیا۔ ایک نئی کمپنی ’ینگ انڈیا‘ نے 2010ء میں اس کو ایکوائر کرلیا۔ اس اکوائر کے پیچھے کی کہانی بھی خاصی دلچسپ ہے۔ بتاتے ہیں کہ نیشنل ہیرالڈ نے 90 کروڑ کا قرض آل انڈیا کانگریس کمیٹی سے لینے کا حوالہ دیتے ہوئے ’ینگ انڈیا‘ پرائیویٹ لمیٹڈ کو 50 لاکھ میں بیچ دیا۔ دلچسپ یہ بھی ہے کہ ’ینگ انڈیا‘ کمپنی میں سونیا اور راہل گاندھی کے 76 فیصدی شیئر ہیں۔ اس طرح ان دونوں کا اس کمپنی پر مالکانہ حق ہے۔نچلی عدالت نے 26 جون 2014ء کو بھاجپا نیتا سبرامنیم سوامی کی عرضی پر کیس درج کیا تھا۔ سوامی کا الزام ہے کہ ایسوسی ایٹڈ جرنل لمیٹڈ کی املاک لینے کے لئے کانگریس پارٹی نے جو 90 کروڑ روپے بطور قرض لیا تھا وہ بھی غیر قانونی ہے۔ سبرامنیم سوامی ہی اس معاملے کو عدالت لے کر گئے ہیں۔ انہوں نے عدالت میں جو عرضی دائر کی ہے اس میں الزام لگایا گیا کہ سونیا گاندھی ۔ راہل گاندھی نے کانگریس پارٹی سے قرض لینے کے نام پر نیشنل ہیرلڈ کی 2 ہزار کروڑ روپے کی پراپرٹی ضبط کرلی ہے۔ کانگریس نیتاؤں کی طرف سے پیش ہوئے کپل سبل نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کو برسوں سے ڈونیشن ملتا رہا ہے۔ پارٹی اسے جیسے چاہے خرچ کرسکتی ہے۔ کوئی دیگر اس کے علاوہ سوال نہیں اٹھا سکتا۔ سوامی کے علاوہ اب تک کسی نے سوال نہیں اٹھایا۔ اب تک پارٹی کو جو بھی ڈونیشن ملا تھا وہ سرکاری قواعد کے مطابق ملا تھا۔ یہ انکم تھی اور انکم غیر منقولہ جائیداد اور دوسری طرف سوامی نے اس 90 کروڑ روپے کے معاملے میں حوالہ کاروبار پر بھی شبہ ظاہر کیا ہے۔ سوامی کا یہ بھی الزام ہے کہ یہ سب کچھ دہلی میں بہادرشاہ ظفر مارگ پر واقع ہیرالڈ ہاؤس کی 1600 کروڑ روپے کی بلڈنگ پر قبضہ کرنے کے لئے کیا گیا۔ سوامی نے یہ بھی کہا کہ سازش کے تحت ’ینگ انڈیا‘ کمپنی کو اے جے ایل املاک کا حق دیا گیا ہے۔ ہیرالڈ ہاؤس کو فی الحال پاسپورٹ آفس کے لئے کرائے پر دیا گیا ہے جس سے کئی لاکھوں کا کرایہ وصولہ جارہا ہے۔ سوامی کا کہنا ہے کہ ہیرالڈ ہاؤس کو مرکزی سرکار نے اخبار چلانے کے لئے زمین دی تھی اس لحاظ سے اسے کمرشل مقصد کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ کانگریس پورے معاملے کو سیاسی رقابت سے دیکھ رہی ہے اور پارلیمنٹ سے سڑکوں تک مظاہرے اور نعرے لگا رہی ہے۔ منگلوار کو تو پارلیمنٹ بھی نہیں چلنے دی۔ ہماراسوال ہے کہ اس معاملے میں مودی سرکار کا کیا لینا دینا ہے؟ یہ ایک مجرمانہ مقدمہ ہے جو ایک شخص نے دائر کیا ہے۔ ان سب حرکتوں سے بہتر ہوگا کہ کانگریس عدالت میں لڑے اور ثابت کرے کہ یہ جھوٹا معاملہ ہے۔ دوسری طرف اب معاملہ اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کی ساکھ بھی داؤ پر لگ گئی ہے۔ دیکھیں عدالت میں کیا ہوتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟