سعودی عرب میں خواتین انقلاب
سعودی عر ب میں واقعی خواتین انقلاب کا آغاز ہوگیا ہے اور دیش کی تاریخ میں پہلی بار عورتوں کو کسی چناؤ میں حصہ لینے کی اجازت ملی ہے۔ مقامی انتخابات میں پہلی بار خواتین ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا اور بطور امیدوار چناؤ میں بھی اتریں۔ اپنی آزادی کی شروعات ہی سب سے پہلے ووٹ کے حق کے ساتھ کرنے والے بھارت جیسے ملکوں میں سعودی خواتین کے اس کارنامے کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ دنیا کے امیر ملکوں کی صوبائی انتخابات میں کھڑے ہونے والی خواتین کو اکیلے گاڑی چلانے کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ ووٹ ڈالنے کیلئے انہیں اپنے گھر کے کسی مرد ممبر کے ساتھ آنا پڑا اور اپنے لئے الگ سے بنی قطاروں میں کھڑے ہوکر ووٹ ڈالنا پڑا۔ سب سے عجیب و غریب بات یہ ہے کہ بطور ووٹر 10 فیصد سے بھی کم خواتین کا رجسٹریشن ہو سکا۔ 2 کروڑ10 لاکھ کی آبادی والی ارب راج شاہی میں صرف 11 لاکھ90 ہزار خواتین ووٹر ہیں ۔پہلا نتیجہ مسلمانوں کے سب سے مقدس مقام مکہ سے آیا۔ مکہ کے میئر اوسامہ البار نے بتایا کہ پاس کے گاؤں مدرکا میں سلمہ بنت حزب الاوتیبی نے جیت حاصل کی ہے۔ اسی کے ساتھ دیش کی پہلی منتخبہ نمائندہ بن گئی ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق17 عورتیں چنی گئی ہیں۔ سعودی عرب کے دوسرے سب سے بڑے شہر جدہ کی ایک سیٹ پر خاتون امیدوار لایا السلیمان نے جیتی ہے۔ دیش بھر میں 2100 سیٹوں کے لئے ہوئے چناؤ میں 7 ہزار امیدوار تھے ان میں 979 خواتین تھیں۔ سعودی عرب میں راج شاہی ہے، یہاں صرف بلدیاتی چناؤ ہی ہوتے ہیں۔ 2005 ء میں پہلی بار چناؤ ہوئے تھے۔13.5 لاکھ مرد ووٹروں کے مقابلے 1.31 لاکھ خواتین نے ووٹنگ کے لئے رجسٹریشن کرایا۔ چناؤ نتائج کے بعد سعودی عرب سنیما کمیٹی نے اعلان کیا کہ دیش میں جلد سنیما گھر کھلیں گے۔ راجدھانی ریاض میں اسے بنانے کیلئے معاہدے پر سائن کیا گیا ہے۔ دیش میں لمبے وقت سے کئی تنظیموں نے سنیما لانے کیلئے تحریک چھیڑرکھی تھی۔ سمندری راج شاہی میں پارلیمنٹ جیسی کوئی چیز آج بھی نہیں ہے۔ ہاں 284 ممبران پر مشتمل مشاورتی کونسل میں ایک تہائی ممبروں کی نامزدگی مقامی بلدیاتی وزارت کے ذریعے کی جاتی ہے لہٰذا کچھ مہلا امیدوار چناؤ جیتنے میں کامیاب رہیں تو شاید ان میں سے کچھ کو مشاورتی کونسل میں شامل ہونے کا موقعہ مل جائے۔ ابھی تو حالت یہ ہے کہ سعودی اقتدار اعلی میں نمائندے جب غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں تو ساتھ میں اپنی بیویوں تک کو نہیں لے جاتے۔ اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ سعودی خواتین کو کوئی اختیار دینا نہیں ہے۔ایک خاتون رضاکار نے شرعیہ قانون کی خلاف ورزی کرکے سڑک پر اکیلے گاڑی چلانے کی کوشش کی تو اسے گرفتار کرلیا۔ ایسے تنگ نظریئے والے حکمرانوں کا خواتین کو تھوڑی آزادی دینا مہلا انقلاب ہی کہا جائے گا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں