طالبان کے بنائے ضلع میںشرعی قانون نافذ!

جنگ سے خستہ حال ہوچکے افغانستان میں پھر طالبان کے لڑاکوں نے دیش کے چار سو سات میں سے 204ضلعوں پر قبضہ کر لیا ہے اور ان مین شرعی قانون نافذ کر دیا گیا ہے عورتوں ۔ میڈیا پر پابندیوں کا دور بھی شروع ہوگیا ہے حالانکہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ اس نے اب تک افغانستان کے 85فیصد حصے پر اپنی بالا دستی قائم کر لی ہے امریکی و نیٹو فوجیوں کی واپسی کے ساتھ ہی طالبان تیزی سے دیش کے بڑے حصے کو اپنے کنٹرول میں لے رہے ہیں ایران ، ترکمانستان سے لگی سرحدی چونکیوں پر طالبانی جنگ بازوں نے اپنا قبضہ کر لیاہے 407میں سے صرف 74ضلعوں پر ہی افغانستان سرکار کا کنٹرول بچا ہے طالبان آہستہ آہستہ ان پر بھی قبضہ کر رہے ہیں پچھلے بیس سال سے عورتوںکو برابری کادرجہ دیئے جانے کی جو مہم چل رہی تھی وہ رک گئی ہے طالبان نے بلخ صوبے کئی ضلعوںمیں پرچے باٹ کر عورتوں پر تمام پابندیاں لگا کر فرمان جاری کر دیا ہے اور لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ انہیں سخت قوانین کی تعمیل کرنی ہوگی جیسا کہ 1996سے 2001کے دروان ہوتا تھا تب طالبان کا افغانستان میں کنٹرول تھا گل رحیم میاں جان وغیرہ نےکہا کچھ ضلعوںمیں نئی سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں یہ علاقہ راجدھانی مزار شریف سے صرف 20کلومیٹر نارتھ میں واقع ہے ۔ تخر، بدخشان اور قدون صوبے کے کئی ضلعے پورہ طرح طالبان کے کنٹرول میں ہے طالبان نے کہا کہ وہ چین کو افغانستان کے دوست کی شکل میں دیکھتا ہے اس نے چین کو با ور کیا ہے کہ اس کے شورش زدہ صوبے شنگیان کے ایغور اسلامی شدت پشندوں کو اپنے یہاں پناہ نہیں دے گا حالانکہ طالبان کی اس پیش کش کو لیکر چین کی طرف سے ابھی کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے ادھر افغانستان کے صدر اشر ف غنی نے طالبان کو دیش میں جاری تشدد اور اموات کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا ہے بھارت کی لئے تشیو ش کی بات یہ بھی ہے کہ لشکر طبینہ جیش محد سمیت کئی آتنکی تنظیموں نے طالبان سے ہاتھ ملا لیا ہے ۔ ہزاروں آتنکی ساتھ مل کر افغانستان کی فوج سے لڑ رہے ہیں ہندوستانی ایجنسیاںبھی اسے لیکر پریشان ہیں معاملے کے واقف لوگوں نے بتایا کہ لشکر اور جیش کے زیادہ تر لڑاکے مشرقی افغانستان کے کنار نگہار صوبوں اور دیش کے جنوب مشرق میں واقع ہیل منداور قندھار صوبوں میں سر گرم ہیں یہ علاقے پاک سر حد سے لگے ہوئے ہیں ۔ بلخ صوبے کی 34سالہ خاتون ناہبہ نے بتایا کہ عورتیں بنا مرد ساتھی کے اور بنا حجا گھر سے نہیں نکل سکتی ہیں کئی عورتوں کے ذریعے خاندان کا گذر بسر کیا جا تاہے ان کے لئے یہ مشکل وقت ہے ۔ تیس فیصد سول خادمہ اب عورتیں ہیں جنہیں دقت ہوگی طالبان نے سیلون والوں کو داڑھی نہ کاٹنے کا حکم دیا ہے اور لوگوں کو داڑھی بڑھانے کو کہا جا رہا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟