حد بندی کے بعد جموں کشمیر میں کیا بدل سکتا ہے ؟

حد بندی ہونے سے جموں کشمیر میں سیاسی تصویر بدل سکتی ہے ؟اس کاروائی کا کیا اثر ریاست پر کس طرح پڑے گا، کیا اس سے کسی علاقے کو زیادہ فائدہ ملے گا؟کچھ سیاسی پارٹیاں حد بندی کاروائی کے پورے ہونے سے پہلے ہی اس کی مخالفت کر رہی ہیں ۔ حد بندی سے ریاست میں کتنی اسمبلی سیٹیں بڑھنے کا امکان ہے یہ سوال اس وقت اٹھے ہیں جب ایسا اتفاق رائے بنتا دکھائی دے رہا ہے کہ جموں کشمیر سے آرٹیکل 370ہٹنے کے بعد سیاسی کاروائی حد بندی عمل کے پورے ہونے کے فوراً بعد شروع ہوسکتی ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حال میں جموں کشمیر کے سیاست دانوں سے ہوئی ملاقات میں بھی سرکار کی طرف سے کہا گیا کہ حد بندی جلد مکمل ہوجائے گی 5اگست 2019کو جب جموں کشمیر سے آرٹیکل 370ہٹاتے ہوئے اس سے ریاست کا درجہ واپس لے لیا گیا تو اس کے بعد یہ دو مرکزی حکمراں ریاستیں جموں کشمیر اور لداخ وجود میں آگئے مرکز نے یہاں نئے سرے سے اسمبلی اور پارلیمنٹ کی سیٹوں کو بنانے کے لئے پچھلے سال فروری میں ایک خصوصی حد بندی کمیشن بنایا تھا ۔ تین نفریز کمیشن کو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج رنجن پرکاش دیسائی اس کی سربراہی کر رہے ہیں ۔ کمیٹی کے ایک سال میں رپورٹ دینی تھی لیکن کوویڈ کے سبب ایسا نہیں ہوپایا اپنی رپورٹ دینے کے لئے اس نے ایک سال کا وقت مانگا جو دے دیا گیا ۔ پچھلے کچھ دنوں سے تمام سیاسی پارٹیوں اور حکام کے ساتھ حد بندی کمیشن کی مسلسل میٹنگ ہو رہی ہیں ۔ مانا جا تا ہے کہ اس سال اگست تک حد بندی کمیشن اپنی رپورٹ دے سکتا ہے ۔ حد بندی کیا ہوتی ہے ؟حد بندی آبادی کی بدلی شکل کو دیکھتے ہوئے ان تبدیلیوں اور اس کے دیگر پہلو¿ں کو بھی نئے سرے سے تجویز کرنے کا ایک عمل ہے ہر مردم شمار ی کے بعد حد بندی کی کاروائی شروع کی جاتی ہے جموں کشمیر میں حد بندی اس لئے کہ دوسرے حصو ںسے الگ تھا کیونکہ آرٹیکل 370کے تحت ایسا کیا گیا تھا مخصوص اختیار ریاست اسمبلی کے پاس تھا حد بندی کی بنیاد پر کم عوامی نمائندگی والے علاقے میں توازن قائم کرنے کی کوشش ہوتی ہے ساتھ ہی ریزرو سیٹوں کی نمائندگی کو نئے سرے سے متعین کرنے کا راستہ کھلتا ہے ۔ جموں کشمیر میں آخری بار حد بندی 1995میں ہوئی تھی موجودہ پس منظر میں چناو¿ میں جو کشمیر میں بہتر کار کردگی دکھاتا ہے وہ فائدہ میں رہتا ہے لیکن نئی حد بندی کے بعد اگر جموں کے حق میں اعداد و شمار زیادہ آگئے تو اس کا اثر پورے علاقے کی سیاست پر پڑ سکتا ہے ۔ کشمیر کی سیٹیں لداخ کے بھی علاقے میں آتی تھیں جو پہلے ہی الگ ہو چکا ہے پچھلے دنوں ضلع ڈیولپمنٹ کونسل کے چناو¿ میں اس کا صاف اثر دیکھا گیا ۔ جموں میں بی جے پی تقریباً پوری جیت حاصل کی تو کشمیر میں گپ کار اتحاد نے بازی ماری بی جے پی کا ہمیشہ سے خیال رہا ہے کہ اگر جموں کے حق میں اعداد و شمار کا حساب کتاب آگیا تو جموں کشمیر میں اکیلے حکمرانی کا راستہ کھل سکتا ہے اور ٹھیک یہی اندیشہ کشمیر کی پارٹیوںمیں بھی ہے اور وہ موجود فائدہ کسی بھی صورت میں کھونا نہیں چاہتی ۔ یہی وجہ حد بندی کاروائی پر اپنی رضا مندی دیں یا نہیں اسے لیکر کئی دنوں تک سیاسی پارٹیوں میں شش و پنج کی حالت بنی رہی ۔ سیاسی پارٹیوں کو یقین دلایا گیا ہے کہ اگر اس کے پاس کوئی حقائق پر مبنی اعتراض ہو تو اسے ضرور سنا جائے گا ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟