شادی میں 50 لوگ اور شراب کی دوکانوں پر 500 کیوں؟

مسلسل کورونا کی تیسری لہر کی آگاہی کے باوجود سیاحتی مقامات ،بازاروں اور تمام پبلک مقامات پر بڑی تعداد میں لوگوں کے پہونچنے سے بھی مرکزی اور ریاستیں فکر مند ہیں ۔وہیں کیرل ہائی کورٹ نے شراب کی دوکانوں کے باہر بھیڑ جمع ہونے پر ناراضگی جتائی ہے ہائی کورٹ نے پوچھا ہے ایک طرف شادی میں صرف پچاس لوگوں کو آنے کی اجازت ہے تو دوسری طرف شراب کی دوکانوں کے باہر بھیڑ لگ رہی ہے وہاں شوشل ڈسٹنسنگ کی تعمیل نہیں ہو رہی ہے اورزیادہ تر لوگ بنا ماسک کے ہوتے ہیں عدالت نے کہا بھیڑ کے ذریعے آپ لوگوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ ہائی کورٹ کے جج جسٹس جیون رام چندرن نے کی یہ رائے زنی توہین عدالت معاملے میں سماعت کے دوران کی عدالت نے شراب کی دوان کے باہر بھیڑ کم کرنے کا بھی حکم دیا تھا لیکن دوکانوں کے باہر سماجی دوری نہیں بنائی جارہی ہے ۔حکام کا کہنا ہے کہ کورونا کرفیو مین مل رہی ڈھیل سے سیاح خوب آرہے ہیں اور اب ان کو خطرہ نہیں رہا ۔اتراکھنڈ میں عالم یہ ہے کہ بھیڑ کے چلتے روزانہ بازاروں میں اور شاہراہوں پر جام لگ رہے ہیں اور شراب کی دوکانوں پرلمبی لمبی لائنیں لگرہی ہیں اورسڑکوں پر شراب پینا معمولاتی طور سے سماج کی ایمیج کو خراب کرتا ہے ریاستی حکومت یقین کرے کہ لوگوں کو سہولیا ت دی جائیں تاکہ ان کے سامنے کسی دوسر ے سامان کیطرح شراب بھی مہذب طریقہ سے خریدنے کا متبادل ہو کورٹ نے کہا کہ ہم کبھی نکلنا نہیں چاہتے لیکن یہ مسئلہ مسلسل بنا ہوا ہے ۔اس کا کوئی پائیدار نکالنا ہی چاہتے ہیں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!