دیش میں میں یونیفارم سول کوڈ!
دہلی ہائی کورٹ نے دیش میں یکساں سول کوڈ (یونیفارم سول کوڈ)قانون کو لیکر بڑی بات کہی ہے عدالت نے کہا کہ دیش میں ایسے قانون کی ضرورت ہے جو سبھی کے لئے برابر ہو اس کے ساتھ ہی ہائی کورٹ نے مرکزی سرکار سے اس معاملے میں ضروری قدم اٹھانے کو کہا ہے فیصلے کے دوران دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس پرتیما سنگھ نے اپنے فیصلے سے مرکزی قانون وزارت کو واقف کرائے جانے کی ہدایت دی جس سے وہ اس مسئلے پر مناسب قدم اٹھائے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس سنگھ نے کہا کہ بڑی عدالت نے 1985میں حکم دیا تھا کہ اس معاملے میں مناسب قدم اٹھانے کے لئے اشو کو قانون وزارت کے سامنے رکھا جائے حالانکہ تب سے تین دہائی کو عرصہ گزر چکا ہے اور یہ صاف نہیں کہ ہے اس بارے میں اب تک کیا قدم اٹھائے گئے ہیں وقت آگیا ہے آئین کی دفعہ 44کی روشنی میں یہ یونیفارم سول کوڈ کی طرف بڑھا جائے سپریم کورت نے وقتاً فوقتاً آرٹیکل 44کے تحت یونیفارم سول کوڈ کی ضرورت کو دہرایا موجودہ کیس جیسے معاملے بار بار ایسے آرٹیکل کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہین جو سبھی کے لئے برابر ہوں جو شادی ، طلاق، جانشینی وغیرہ جیسے پہلو¿ں پر برابر وصولوں کو لاگو کرنے میں مدد کرتے ہوں بتا دیں کہ آرٹیکل 36و 51کے ذریعے ریاست کو صلاح دی گئی ہیں امید کی گئی ہے کہ ریاستیں اپنی پالیسی طے کرتے ہوئے ان پر دھیان دیں گی انہیں میں آرٹیکل 44ریاست کو مناسب وقت آنے پر سبھی مذاہب کے لئے یکساں سول کوڈ بنانے کی ہدایت دیتا ہے ۔ کل ملاکر آرٹیکل 44کا مقصد کمزور طبقوں سے امتیاز کے مسئلے کو ختم کرکے دیش بھر میں مختلف تہذیبی اصولوں کے درمیان تال میل بڑھانا ہے ۔ کیا کامن سول کوڈ؟ابھی دیش بھر میں الگ الگ مذاہب کے لئے الگ الگ پرسنل لا ءہے اس کے حساب سے ان کی شادی ، طلاق گزارہ بھتا گوند لینے جیسی کاروائی وراثت سے متعلق حقوق وغیرہ طے ہوتے ہیں ، کامن سول کوڈ کے لاگو ہونے پر سب کے لئے ایک ہی قانون ہوگا اب یہ مانگ کیوں اٹھ رہی ہے ؟مسلم پرسنلاءمیںکثیر شادی کی چھوٹ ہے دیگر مذاہب میں ایک میاں بیوی با قاعدہ شادی قواعد لاگو ہیں ہندو عیسائی پارسی کے لئے دوسری شادی جرم ہے آئی پی سی کی دفعہ 494میں سات سال کی سزا ہے اسلئے کئی لوگ دوسری شادی کرنے کے لئے مسلم مذہب اختیار کر لیتے ہیں قومی سطح پر ایک پائیدار ویونیفائیڈ قانون مل سکے گا ۔ الگ الگ مذہبوں کے لئے الگ الگ قانون ہونے کے سبب غیر ضروری مقدمے بازی میں الجھنا پڑتا ہے ابھی شادی کی عمر الگ الگ مذاہب میں الگ الگ ہے قانون بننے کے بعد یہ ایک ہو جائے گی 1980میں سرخیوں میں چھائے شاہ بانو و بلقیس کیس میں سول یونیفار م کووڈ کا معاملہ اٹھا تھا تب سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ بنیادی حق اور پالیسی ساز اصولوں کے درمیان بھائی چارہ تواز ن کا خیال رکھنا اہم بنیادی اصول ہے ۔ 1985میں شاہ بانو کس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ یہ انتہائی دکھ کا موضوع ہے کہ ہمارے آئین کہ دفعہ 44ایک مردہ الفاظ بن کر رہ گئی ہے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں