کرناٹک بحران سے کمل کھلنے کی امید !

کرناٹک میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس پر شاید ہی کسی کو تعجب ہو ۔دراصل 2018میں کرناٹک اسمبلی چناو ¿ نتائج کے بعد بی جے پی کور وکنے کے لئے ڈرامائی واقعے کے درمیان جے ڈی ایس اور کانگریس نے مل کر بھلے ہی سر کار بنالی تھی لیکن ایک تو دونوں پارٹیوں کے درمیان جو کیمسٹری ہونی چاہئے تھی وہ کبھی نہیں رہی دوسرے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں تھا کہ بی جے پی اس سر کار کو زیادہ چلنے نہیں دے گی ۔خود وزیر اعلی کمار سوامی کھے طور پر بے میل اتحاد کی بات تسلیم کرچکے ہیں کئی کانگریس ممبران اسمبلی مسلسل اس اتحاد کو لیکر ناراضگی ظاہر کرچکے تھے ۔ان آپسی لوک سبھی چناو ¿ میں اتحاد کی ضرورت کے بعد کہہ کر دونوں پارٹیاں اتحاد کے بچانے میں کامیاب ہوگئی تھی ۔لیکن لوک سبھی چناو ¿ میں بی جے پی نے ریاست میںکی 28میں سے 26سیٹیں جیت کر اتحاد میں آخری کیل ٹھوک دی ۔کانگریس جے ڈی ایس دونوں ایک دوسرے کو اس اتحاد کی بڑی کمزوری بتانے لگے ۔اسکے علاوہ کانگریس کے اند ر لیڈر شپ بحران اور خیمے بازی کا بھی اثر صاف دکھنے لگا ہے ۔سابق کانگریس وزیر اعلی سدارمیا گروپ اس اتحاد کی صاف مخالفت میں تھا وہیں مالکا ارجن کھڑگے حمایت میںتھے حکمراں جے ڈی ایس اور کانگریس کے 11ممبران اسمبلی جس طرح استعفی دیکر ریاست سے باہر نکل گئے تھے اس سے یہ صاف ہے کہ وہ اپنا فیصلہ آسانی سے بدلنے والے نہیں ہیں ۔کمار سوامی کی قیادت والی اتحادی سرکار اقلیت میں آتی نظر آرہی ہے اور ایک آزاد ممبر اسمبلی وزیر کے استعفے سے ریاست میں بحران گہرا ہوگیا ہے ۔اوریہ دیکھتے ہوئے بھاجپا نے جس طرح سے اپنی سرگرمی بڑھادی ہے اس کا یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ یہ استعفے کیوں دیئے گئے ہیں ؟اور کس کے اکسانے پر دیئے گئے ہیں ؟کرناٹک اسمبلی میں 224سیٹیں ہیں اس میں جنتادل ایس کے 37اور کانگریس کے پاس 78بسپا کے پا ایک اور دو آزاد کمار سوامی حکومت کو حمایت دے رہے ہیں وہیں بھاجپا کے پاس 105ممبراسمبلی ہیں ۔چار ناراض ممبران اسمبلی نے یہ بھی شرط رکھی ہے کہ اگر سدا رمیاوزیر اعلی بنتے ہیں تو وہ اپنا استعفی واپس لے لیں گے وہیں اسپیکر رمیش کمار نے کہا کہ ہاو ¿س میں طاقت آزمائی کا امتحان ہوگا اور اس میں طے ہوگا کہ سرکار گرے گی یا نہیں اس کا فیصلہ اسمبلی میں ہی ہوگا ۔بھاجپانے سنیچر کے روز کرناٹک کے حالات کے پیش نظر کہا ہے کہ وہ ریاست میں سرکار بنانے کے لئے تیار ہے اور اگلی وزیر اعلی بی ایس یدی یروپا ہونگے ۔بیشک اس وقت بھلے ہی بی جے پی سرکار بنالے لیکن اس کی مضبوطی پر سوالیہ نشان لگارہے گا بہتر متبادل یہ کہ کرناٹک اسمبلی چناو ¿ تھوڑی دیر بعد پھر کرائی جائےں۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟