لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے پاک باز آنے والا نہیں ہے

پٹھانکوٹ کی طرح ایک بار پھر سال کے شروع میں ہی جموں و کشمیر میں آتنکی حملہ ہوا ہے۔اکھنور سیکٹر میں ایتوار کی رات 1 بجے دہشت گردوں نے جنرل ریزرو انجینئرنگ فورس کے کیمپ پر حملہ کرکے اس میں کام کرنے والے 3 مزدوروں کو موت کی نیند سلا دیا۔ کیمپ پر پہلے دستی گولے پھینکے گئے پھر اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں۔ وہاں کھڑی گاڑیوں اور دفتری دستاویزات میں آگ لگادی اور اندھیرے و کہرے کا فائدہ اٹھاکر فرار ہونے میں کامیاب رہے۔ اس وقت کیمپ میں 10 ملازم اور 10 مزدور موجود تھے۔ آتنکی حملہ میں 3 مزدورمارے گئے۔ اس سے پہلے دہشت گردوں نے جموں کے ہی نگروٹا سیکٹر میں فوج کے ایک کیمپ پر حملہ کیا تھا جس میں دو افسر سمیت 7 جوانوں کی جان گئی۔ اسی دن سانبا ضلع میں بارڈر سکیورٹی فورس کے ایک کیمپ پر بھی آتنکی حملہ ہوا تھا۔ ان دہشت گردوں نے 40 دن بعد پھر حملہ کرکے یہ جتادیا کہ ان کی سرگرمی نہ صرف بنی ہوئی ہے بلکہ شاید اور بڑھ گئی ہے۔ دہشت گردوں نے جس طرح حملہ کیا اس سے اسی اندیشے کو تقویت ملتی ہے کہ ان دہشت گردوں کے لئے ہندوستانی سرحد کی ٹوہ لینا ابھی بھی آسان ہے۔ اس سے اندرونی سکیورٹی سسٹم کے چاق چوبند ہونے پر ایک بار پھر سوال اٹھتے ہیں۔ دوسرے نوٹ بندی سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ جانے کے سرکار کے دعوے پر بھی سوالیہ نشان لگتا ہے۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کنٹرول لائن سے محض 2 کلو میٹر قریب بھی سکیورٹی انتظام اتنا پختہ کیوں نہیں ہے کہ آتنک وادی اتنی آسانی سے حملہ کو انجام دے رہے ہیں؟ نہ صرف حملہ ہی کرتے ہیں بلکہ حملہ کرنے کے بعد بھاگنے میں بھی کامیاب ہورہے ہیں؟ پچھلے 7 ستمبر کو فوج کی سرجیکل اسٹرائک کے بعد خوب بڑھ چڑھ کر دعوے کئے گئے تھے کہ اب دراندازی کرنے اور یہاں آکر کوئی واردات کرنے سے پہلے دہشت گرد سو بار سوچیں گے۔38 دہشت گردوں کو ڈھیر کردینے اور سرحد پار واقع دہشت گردی ڈھانچہ تباہ کردینے سے یہ بھی لگا تھا کہ اب دہشت گردوں کی طاقت بہت کم ہوگئی ہے لیکن یہ امیدیں اب ملیامیٹ ہوتی جارہی ہیں۔ حالات جو بھی ہوں اس اندیشے کو دور کیا جانا چاہئے ۔ پہلی بار یہ ہے کہ دہشت گردوں کیلئے اب بھی ہماری سرحد میں گھسنا، دوسرے اتنی آسانی سے حملہ کرنا اب بھی ممکن ہے۔ سرحد پرسکیورٹی کو ترجیح دینا اور اس کو مضبوط بنانا اس لئے ضروری ہے کیونکہ پٹھانکوٹ، اڑی اور نگروٹا میں ہوئے خطرناک آتنکی حملوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ جب چاہیں جہاں چاہیں حملے کو انجام دے سکتے ہیں۔ فوج کے کیمپوں پر حملے کے بعد بھارت سرکار کو یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ پاکستان کے رخ اور رویئے میں کوئی تبدیلی آنے کی امید نہیں ہے۔ ہمیں اپنا گھر پکا کرنا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟