پنجاب میں اسمبلی چناؤ کی بساط بچھ چکی ہے

پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کے اعلان کے بعد دیش کی نظریں سب سے زیادہ اہم ریاست اترپردیش اور پنجاب پر ٹک گئی ہیں۔ پنجاب کے لوگوں کے پاس اپنے من کی بات کہنے کے لئے چناؤ کمیشن نے 30 دن کا وقت دیا ہے۔ پنجاب میں عام طور پر اکالی۔ بھاجپا اتحاد بنام کانگریس کے درمیان مقابلہ ہوتا رہا ہے لیکن اس مرتبہ عام آدمی پارٹی کے چناؤ دنگل میں کودنے کے بعد مقابلہ سہ رخی بنتا نظر آرہا ہے۔ 4 فروری کو ہونے والے اسمبلی چناؤ میں انہی تینوں کے درمیان سخت ٹکر ہوگی۔ پہلے ہم اکالی دل کی بات کرتے ہیں۔ 10 سال میں اقتدار کا سکھ اٹھا چکی شرومنی اکالی دل کے لیڈروں نے پچھلے 6 مہینوں کے دوران یہ سب کچھ کرنے کی تمام کوشش کی ہے جو انہوں نے پچھلے ساڑھے نو سال کے دوران نہیں کی تھی۔ پارٹی کی دیہی علاقوں میں مضبوط بنیاد ہے بھاجپا کے ساتھ اتحاد سے وزیر اعظم نریندر مودی کے چہرے کا فائدہ بھی ہے۔ ہرمندر صاحب۔ سورن مندر کا ڈیولپمنٹ سہ رخی مقابلے میں حریف ووٹوں کا امکانی بٹوارے کا بھی پارٹی کو فائدہ مل سکتا ہے۔ دوسری طرف اس اتحاد کے سامنے چنوتیاں بھی کم نہیں ہیں۔ اینٹی کمبینسی سے لڑنا ہوگا۔ نشے کا کاروبار اور نوٹ بندی کے بعد بڑھتی بے روزگاری، قانون و نظم بڑے چیلنج ہوں گے۔ کیپٹن امریندر سنگھ کانگریس کی اس جنگ کی قیادت کررہے ہیں۔
نوجوت سنگھ سدھو اگر کانگریس میں شامل ہوتے ہیں تو ماحول میں کانگریس کو مضبوطی ملے گی اور اس کا مینڈیٹ بڑھے گا۔ ڈرگس کاروبار ، قانون و نظام، بے روزگاری اور نابھا جیل و پٹھانکوٹ حملے جیسے اشو پر کانگریس کے سامنے چنوتیاں کم نہیں ہیں۔ کانگریس کے مختلف گروپوں کو متحد کرنا، پارٹی نیتاؤں کے درمیان بہتر تال میل قائم کرنا، دیہی علاقوں میں پارٹی کا اثر بڑھانا اور اقتدار مخالف ووٹروں کے بٹوارے کو روکنا ہوگا۔ کچھ چنوتیاں اکالی دل کے ساتھ نوجوت سنگھ سدھو کی تھوڑی نجی رنجش بہت گہری ہے جس کا فائدہ کانگریس کو ضرور ملے گا۔ دوسری طرف ان کی زبان عاپ پارٹی کو بھی بخشنے والی نہیں ہوگی کیونکہ سدھو نے عاپ کی کچھ ایسی حرکتیں دیکھی ہیں جس کے بعد وہ چپ نہیں رہے گا۔ عام آدمی پارٹی کو اکالی دل اور کانگریس سے ناراض لوگوں کی شخصیت کے بجائے اشوز پر مبنی سرکار کا متبادل دینے والی پارٹی کی شکل میں ابھرنے کا موقعہ ملے گا۔ 
نئی پارٹی ہونے سے جنتا میں نظام حکومت کو لیکر کسی طرح کی ناراضگی یا بے چینی نہیں ہوگی لیکن پنجاب میں تنظیم کا محدود دائرہ ہے۔ دہلی میں کیجریوال سرکار کی کارگزاری ، عاپ سے الگ ہوئے باغیوں سے بچنا ، پارٹی میں ایک بااثر چہرے کی فی الحال کمی ہے یہ ہیں کچھ چنوتیاں کیجریوال کے سامنے۔ کل ملا کر پنجاب میں اسمبلی چناؤ کی بساط بچھ چکی ہے دیکھیں چناوی کمپین کیسی رہتی ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!