پرنب مکھرجی کی تشویش واجب ہے

نوٹ بندی کالے دھن اور کرپشن کے خلاف بیشک ایک بڑا قدم ہے مگر صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کی وارننگ پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ اس قدم سے طویل المدت ملنے والے فائدے کی توقعات میں غریبوں کو ہورہی تکلیفوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتالیکن سرکار کو اس پر غور کرنا ضروری ہے۔ گورنروں اور لیفٹیننٹ گورنروں کے لئے نئے سال کے اپنے خطاب میں بصد احترام پرنب مکھرجی نے دوہرایا ہے کہ نوٹ بندی کالے دھن اور کرپشن کے خلاف ایک بڑا قدم ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے جزوی مندی آسکتی ہے۔ اقتصادی ترقی کے دم پر مضبوط فیصلے لے رہی مرکزی حکومت کے لئے جی ڈی پی میں اضافے کے اندازے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نوٹ بندی سے دیش کو کچھ سیکٹروں میں نقصان بھی ہورہا ہے۔ سی ایس او نے رواں مالی سال کیلئے 7.1 فیصدی کی ترقی شرح کا اندازہ لگایا ہے جو کہ ایک سال پہلے 7.6 فیصدی کے مقابلے کم ہے۔ مگر ماہر اقتصادیات اور پرائیویٹ اکنامک ایجنسیاں اس اعدادو شمار سے اتفاق نہیں رکھتیں۔ ان کی مانیں تو جب حتمی طور پر اعدادو شمار آجائیں گے تو ترقی شرح کی تصویر ویسی نہیں رہے گی، جیسی بتائی جارہی ہے۔ ان سبھی کی دلیل ہے کہ جب نوٹ بندی کے اثر کو شامل نہیں کیا گیا تھا تو پھر جی ڈی پی اضافے کے اعدادو شمار صحیح کیسے ہوسکتے ہیں؟ ان ایجنسیوں کی نظر میں دیش کی ترقی شرح 6 سے 6.6 فیصدی کے درمیان رہے گی۔ یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ رواں مالی سال کے لئے جی ڈی پی میں اضافے کے اندازے میں زیادہ تر اعدادو شمار اپریل سے اکتوبر تک ہی شامل کئے گئے ہیں۔ مطلب ہے کہ نوٹ بندی کے بعد ملک کی معیشت پر اس کا کیا اثر پڑا اس کا اندازہ اس میں شامل نہیں ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ 9 نومبر کو 500 اور 1000 کے پرانے نوٹوں کو چلن سے ہٹانے کا اعلان کیا تھا اس کے بعد سے ہی ماہرین اقتصادیات نے کہا تھا کہ اس قدم کا معیشت پر منفی اثر پڑے گا اور ترقی شرح میں 2 فیصدی تک ہی گراوٹ آسکتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کا تجزیہ ہے کہ فروری کے آخر تک ہی حالات 90 فیصد تک بہتر ہوپائیں گے۔ غریب اور محروم طبقے کے لئے دو مہینے کا وقت کافی مشکل ہوتا ہے۔ جیسا کہ صدر جمہوریہ نے کہا ہے، وہ زیادہ انتظار نہیں کرسکتے۔ اس لئے یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ ایک ایسی پہل، جس میں ترقی کا دور رس نظریہ شامل ہو کا حصہ دار بننے سے جنتا و حاشیئے پر گئے لوگ نہ ٹوٹ پائیں۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟