چناؤ سے 3 دن پہلے بجٹ پر اپوزیشن کا اعتراض

پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ شروع ہونے کے تین دن پہلے پیش ہونے والے عام بجٹ کو لیکر سیاسی گھماسان شروع ہوچکا ہے۔ اپوزیشن نے الیکشن کمیشن سے عام بجٹ کو چناؤ بعد پیش کرنے کی مانگ کی ہے جبکہ سرکار نے تاریخ بدلنے سے انکار کرتے ہوئے کہا بجٹ یکم فروری کو ہی پیش ہوگا۔ اپوزیشن پارٹیوں کے ایک نمائندہ وفد نے چناؤ کمیشن سے ملاقات کرکے مانگ کی ہے کہ یکم فروری کو بجٹ پیش کرنے کی سرکاری تیاری کو روکا جائے۔ وہ مانتے ہیں یہ چناؤ ضابطہ کی خلاف ورزی ہوگی۔ اس کے لئے کئی پارٹیوں نے صدر جمہوریہ کو بھی خط لکھا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ یہ بجٹ اس وقت پیش کیا جائے گا جب دیش کی پانچ ریاستوں میں پولنگ کی تیاری چل رہی ہوگی۔ ان پارٹیوں کو ڈر ہے کہ مرکزی سرکار اس بجٹ میں عوام کو لبھانے والی پالیسیوں و اسکیموں کو اس طرح سے پیش کر سکتی ہے جس سے رائے دہندگان متاثر ہوسکیں۔ کانگریس، سپا، بسپا، ترنمول کانگریس اور ڈی ایم کے، جنتادل (یو) ، آر ایل ڈی کے نیتا اپنی اس مانگ کو لیکر الیکشن کمیشن گئے۔ کانگریس کے لیڈرغلام نبی آزاد نے کہا کہ ہمیں بجٹ اجلاس سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ چناؤ کے درمیان بجٹ پیش کرنے پر اعتراض ہے۔ غور طلب ہے کہ ٹھیک پانچ سال پہلے جب یوپی ، اتراکھنڈ، پنجاب، گووا اور منی پور میں اسمبلی چناؤ کے پروگرام اعلان ہوئے تھے تب پارلیمنٹ میں حکمران اپوزیشن بھاجپا نے یوپی اے سرکار کو عام بجٹ کی تاریخ بدلنے کیلئے مجبور کردیا تھا۔ اب موجودہ اپوزیشن کانگریس کی طرح بھاجپا سرکار کیلئے مورچہ کھولتے ہوئے چناؤ کمیشن سے مداخلت کرنے کی اپیل کی تھی۔ دباؤ میں جھکتے ہوئے اس وقت کی یوپی اے سرکار نے سال2012ء میں سابقہ اعلان تاریخ یکم مارچ کی جگہ16 مارچ کو بجٹ پیش کیا تھا۔ ان کی بات میں دم ہوسکتا ہے لیکن قانونی طور سے بجٹ کو روکنا کس حد تک ممکن ہو پائے گا یہ کہنا مشکل ہے زیادہ تر ماہرین مان رہے ہیں کہ ریاستوں کے چناؤ کیلئے مرکزی بجٹ کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ ایسی کوئی مثال نہیں ہے لوک سبھا چناؤ کے معاملے میں یہ ضرور ہوتا ہے کہ بجٹ تو پیش کیا جانا یا روک دیا جانا ہے اس کی جگہ صرف انترم بجٹ پیش ہوتا ہے اور ایک بار جب عام چناؤ کا پروسیس ختم ہوجاتا ہے تو مکمل بجٹ پارلیمنٹ کے اندر پیش کیا جاتا ہے۔ اپوزیشن پارٹی یہی روایت اسمبلی چناؤ کے معاملے میں بھی چاہتی ہیں۔ ویسے اس بار کا عام بجٹ سرکار کیلئے کافی اہم ہے۔ اس بار بجٹ کی پوری روایت کو بدلا جارہا ہے۔ بجٹ فروری کے آخری دن پیش ہونے کی بجائے مہینے کے پہلے دن ہی پیش ہوگا۔ جہاں تک لوک لبھاون پالیسیوں کا معاملہ ہے تو ہمیں نہیں لگتا اس میں زیادہ گنجائش ہے۔ حال ہی میں وزیر اعظم نے نئے سال کے موقعہ پر کئی لوک لبھاون اسکیموں کا اعلان کردیا ہے ان پر بھی اپوزیشن پارٹیوں نے اعتراض کیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے دیش کے نام پیغام نہیں دیا بلکہ ایک طرح سے منی بجٹ پیش کیا ہے۔ مرکزی سرکار نے اپوزیشن پارٹیوں کے اعتراض کو دیکھتے ہوئے اٹارنی جنرل کی رائے لینا کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ چناؤ پروگراموں کے اعلان کے باوجود بجٹ پیش کرنے میں کوئی آئینی یا قانونی اڑچن نہیں ہے مگر اپوزیشن کے پارٹیوں کے اعتراض کو دیکھتے ہوئے سرکار اٹارنی جنرل سے مشورہ کرے گی اور اپنا موقف چناؤ کمیشن کے سامنے رکھے گی۔ آخری فیصلہ چناؤ کمیشن کو کرنا ہے۔
 (انل نریندر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟