کیوں نہ ہو جوابدہ یہ غیر سرکاری انجمنیں

سپریم کورٹ کے ذریعے غیر سرکاری انجمنوں(این جی او) کو جوابدہی کے دائرے میں لانے کے لئے ان کے کھاتوں کا 31 مارچ تک آڈٹ کرانے کی ہدایت کا خیرمقدم ہے۔ سالانہ حساب کتاب نہ دینے والی این جی او صرف بلیک لسٹ میں ڈالنے کو ناکافی بتاتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت کو ایسی این جی او کے خلاف فوج داری یا دیوانی کا مقدمہ چلانے کی بھی ہدایت دی ہے۔ ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے حکومت سے پوچھا ہے کہ آخر غیر سرکاری انجمنوں و کمیٹیوں کے فنڈ اور ان کے استعمال کی نگرانی کے لئے اب تک کوئی ریگولیٹری سسٹم کیوں نہیں ہے؟ قسم قسم کی غیر سرکاری انجمنوں کو کہاں سے پیسہ ملتا ہے اور اسے کس طرح خرچ کرتی ہیں یہ سب یقینی بنانے والے سسٹم کا قیام بہت پہلے ہی کردیا جانا چاہئے تھا۔ یعنی اب ہر این جی او کو عوام کے پیسے کا حساب کتاب دینا ہوگا۔ دیش بھرمیں تقریباً32 لاکھ این جی او ہیں جن میں سے محض 3 لاکھ ہی اپنی بیلنس شیٹ داخل کرتی ہیں۔ ان پر نگرانی رکھنے کیلئے کوئی باقاعدہ ڈیولپ مشینری بھی نہیں ہے۔ چیف جسٹس جے ایس کھیر، جسٹس این وی رمن اور جسٹس دھنن جے چندرچوڑ کی بنچ نے ایک عرضی کی سماعت کرتے ہوئے غبن کرنے والی این جی او کے خلاف فوجداری کا مقدمہ چلانے کا بھی حکم دیا ہے۔ حال ہی میں مرکزی وزارت داخلہ نے قریب20 ہزار غیر سرکاری انجمنوں کے غیر ممالک سے پیسہ لینے کے لائسنس کو اس لئے منسوخ کیا تھا کیونکہ وہ غیر ملکی چندہ ریگولیٹری قانون کے مختلف تقاضوں کی خلاف ورزی کر رہی تھیں۔ کیا اس بارے میں یقینی ہوا جا سکتا ہے کہ جو غیر سرکاری انجمنیں بیرونی ملک سے پیسہ نہیں لے رہی ہیں وہ اپنا کام صحیح کررہی ہیں؟ یہ سوال اس لئے کیونکہ سپریم کورٹ نے پایا کہ ایسی انجمنوں کے کھاتے کا کوئی آڈٹ نہیں ہوتا۔ یہ تو ایک طرح کی اندھیر گردی ہے کہ دیش میں قریب30 لاکھ غیر سرکاری انجمنیں ہیں لیکن ان میں سے مشکل سے 3 لاکھ ہی اپنے آمدو خرچ کی تفصیل داخل کرتی ہیں لیکن جنتا کے پیسو ں کے ساتھ دھوکہ دھڑی کرنے والی این جی او کا یہ ایک پہلو ہے یعنی صرف این جی او ہی اس کیلئے اکیلے ذمہ دار نہیں ہے۔ اس میں چار طرح کے گٹھ جوڑ شامل ہیں، جو مل جل کر جعلسازی اور غبن کرتا ہے مثلاً مرکزی سماجی کلیان بورڈ، کپاٹ اور ضلع بلاک سطح پر کام کررہے سرکاری ادارے جنہیں عطیہ کنندہ ( ایجنسی) ادارہ کہا جاتا ہے ۔ دوسرے این جی او کے کام کاج کو مانیٹر کرنے والے، تیسرے آڈیٹر و سی اے ، چوتھا خود این جی او۔ سب سے سنگین بات یہ ہے کہ کئی غیر سرکاری انجمنیں ماحولیات اور انسانی حقوق کی حفاظت کے بہانے ترقی مخالف ایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہیں۔ عام طور پر مشتبہ قسم کی غیر سرکاری انجمنوں کے خلاف کوئی کارروائی اس لئے نہیں ہو پاتی کیونکہ واضح قاعدے قوانین کی کمی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟