گووا میں بھاجپا کو دوبارہ اقتدار میں آنے کی چنوتی

گووا میں 40 سیٹوں کی اسمبلی کے لئے 4 فروری کو ووٹ پڑیں گے۔ اس وقت بھاجپا 21 سیٹوں کے ساتھ سرکار میں ہے وزیر اعلی ہیں لکشمی کانت،گووا میں اس بار مقابلہ سہ رخی ہونے کا امکان ہے۔ 4 فروری کو ہونے والے اسمبلی چناؤ میں حکمراں بھاجپا، اپوزیشن کانگریس اور پہلی بار اپنی قسمت آزمانے جا رہی عام آدمی پارٹی آمنے سامنے ہوں گے۔ 2012ء کے چناؤ میں منوہر پاریکر کی قیادت میں بھاجپا نے کامیابی حاصل کی تھی۔تب مہاراشٹر وادی گومنتک پارٹی (ایم جی پی) کے ساتھ اس کا اتحاد تھا لیکن اب یہ گٹھ بندھن ٹوٹ گیا ہے۔ مہاراشٹر وادی گومنتک پارٹی نے انتخابات کے اعلان ہونے کے بعد بھاجپا اتحاد توڑ لیا ہے۔ این جی پی چیف دیپک چھب لیکر نے گووا کی گورنر مردلسنہا اور اسمبلی اسپیکر اننت ساٹھے کو اپنا خط لکھ کر اس سلسلے میں اطلاع دے دی ہے۔ ریاست میں 40 سیٹوں پر اب وہ آر ایس ایس کے سابق لیڈر سبھاش ویلنکر کی پارٹی کے ساتھ مل کر چناؤلڑے گی۔ شیو سینا کے بھی اس اتحاد میں شامل ہونے کا امکان ہے۔ چھب لیکر نے بتایا کہ پارٹی 22 سیٹوں پر چناؤ لڑے گی۔ کانگریس پارٹی کیلئے یہ چناؤ وجود بجانے کا موقعہ ہے۔ 2012ء کے چناؤ میں 9 سیٹ کے ساتھ وہ کم از کم سطح پر پہنچ گئی تھی۔ پچھلے جھٹکے سے سبق سیکھتے ہوئے اب وہ گووا فارورڈ، راشٹروادی کانگریس پارٹی اور یونائیٹڈ گوانس پارٹی کے ساتھ تال میل کیلئے تیار ہوگئی ہے۔ اروند کیجریوال کی لیڈر شپ والی عام آدمی پارٹی نے بھی گووا کے چناوی میدان میں تال ٹھونکی ہے۔ بھاجپا اور کانگریس سے الگ رہنے والی کئی تنظیمیں و نیتا عاپ کے ساتھ جڑنے سے یہ پارٹی طاقتور بن کر ابھری ہے۔ بھاجپا سے اتحاد توڑ چکی این جی پی نے ریاست کے وزیر اعلی لکشمی کانت پارسیکر کے خلاف ماندہ اسمبلی حلقہ سے امیدوار اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایم جی پی نے پہلے ہی پارسیکر کی قیادت میں چناؤ لڑنے سے انکار کردیا تھا۔ سدیپ چھبلکر نے الزام لگایا کہ پارسیکر کے عہد میں ریاست 10 سال پیچھے چلی گئی ہے۔ پرتگال سے آزاد ہونے کے بعد ایم جی پی نے ریاست میں پہلی بار سرکار بنائی تھی۔ ریاست کے پہلے دو وزیر اعلی بھی اسی پارٹی کے تھے۔ 18 سال تک گووا میں ایم جی پی ہی اقتدار میں تھی۔ پچھلے اسمبلی چناؤ میں پارٹی تین سیٹیں ہی جیت پائی تھی۔ چناؤ میں اہم اشو ہیں گووا اپنی ثقافتی پہچان بنانے کے لئے بے چین ہے۔ دوہری شہریت کا اشو بھی بڑا ہے۔ ریاست میں بگڑتی لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بھی تشویشناک رہی ہے۔ کل ملاکر مقابلہ سخت ہے۔ بھاجپا کے لئے دوبارہ اقتدار حاصل کرنا آسان نہیں لگ رہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟