زخمی اختر خاں کو چھوڑ داغی پولیس بھاگی

اترپردیش کی پولیس کی ساکھ پر ایک بار پھر داغ لگا ہے۔ بلند حوصلہ بدمعاشوں نے پیر کو تڑکے دادری کوتوالی میں واقع نئی آبادی میں شاطر بدمعاش کے گھر دبش مارنے گئے دروغہ اختر خاں (48 سال) کو گولی سے اڑادیا۔ انسپکٹر ہوم سنگھ یادو کی رہنمائی میں گئی پولیس پارٹی ساتھی دروغہ کو گولی لگتے ہی موقعہ سے فرار ہوگئی۔شہید دروغہ کے مامو کا الزام ہے کہ ڈیڑھ گھنٹے تک اختر موقع پر لہو لہان پڑے رہے۔ بعد میں مقامی لوگوں نے انہیں ہسپتال پہنچایا جہاں انہیں مردہ قراردے دیا گیا۔ اختر دادری کوتوالی کی کوٹ چوکی کے انچارج تھے۔ واردات کی جگہ کوتوالی سے مشکل سے 400 میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ بدمعاش جاوید و فرقان اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ فرار ہوگئے۔ بنیادی طور سے علیگڑھ کی فردوس کالونی کے باشندے اختر خاں سپاہی سے ترقی پا کر دروغہ بنے تھے اور کوٹ چوکی پر 6 مہینے سے تعینات تھے۔ ایتوار کی رات پولیس کو نئی آبادی محلہ میں شاطر بدمعاش جاوید کے پاس بھاری مقدار میں ہتھیار ہونے کی اطلاع ملی اور پیر کی صبح 4 بجے انسپکٹر ہوم سنگھ یادو کی رہنمائی میں 12 پولیس والوں کی ٹیم نے چھاپہ ماری کی۔ جاوید اپنے ساتھی فرقان کے گھر میں چھپا ہوا تھا۔ پولیس ٹیم کے فرقان کے گھر کا دروازہ کھلتے ہی اندر موجود پانچ بدمعاشوں جاوید، اورنگزیب، فرقان، طوطا اور وسیم نے پولیس ٹیم پر حملہ کردیا۔ دروغہ اختر خاں کو گردن اور پیٹ میں گولی لگی۔ اختر کے گولی لگتے دیکھ پولیس ٹیم کے دیگر پولیس والے جس میں انسپکٹر میں شامل تھے موقعہ سے بھاگ گئے۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد پولیس کی ٹیم پھر سے موقعہ پر پہنچی۔ تب تک بدمعاش فرار ہوچکے تھے۔ بنیادی ملزم ہسٹری شیٹر جاوید پر قتل اور لوٹ مار کے 15 مقدمے درج ہیں۔ زیادہ تر معاملہ دہلی میں درج ہیں۔ 
شہید سب انسپکٹر اختر خاں کے اس معاملے میں ساتھی پولیس ملازمین پر سنگین الزام لگ رہے ہیں۔ ایک جانباز کو گولی لگنے کے بعد ٹیم میں شامل باقی پولیس والے اکیلا چھوڑ کر کیوں بھاگ گئے یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ جب پوری ٹیم تیاری کے ساتھ گئی تھی تو بدمعاشوں کا مقابلہ کیوں نہیں کیا گیا؟ کوتوالی مشکل سے کچھ میٹر دوری پر تھی۔ بتایا جارہا ہے دبش ڈالنے گئی ٹیم میں سب سے آگے اختر خاں ہی تھے۔ اس بار بھی بدمعاش چکما دے کر فرار ہونے میں کامیاب رہے۔آس پاس کے لوگوں کی باتوں پر یقین کیا جائے تو جب مقامی لوگوں نے دیکھا کہ اختر خاں خون سے لت پت پڑے ہیں اور باقی پولیس ٹیم موقعہ سے بھاگ کھڑی ہوئی تو انہوں نے ہی اختر خاں کو ہسپتال پہنچایا۔ یہ بھی تذکرہ ہے کہ اختر خاں کسی رنجش کا شکار تو نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!