غیر قانونی دھارمک مقامات کے پیچھے آستھا نہیں پیسہ کمانا ہے

سپریم کورٹ نے دیش بھر میں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر ناجائز طریقے پر پوجا استھلوں کی موجود گی پر افسران کی لاچاری کو لیکر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا یہ بھگوان کی توہین ہے۔ جسٹس گوپال گوڑا اور جسٹس ارون مشرا کی بنچ نے کہا کہ آپ کو اس طرح کے ڈھانچوں کو گرانا ہوگا۔ ہمیں پتہ ہے کہ آپ کچھ نہیں کررہے ہیں۔ بنچ نے سماعت کے دوران یہ بھی کہا کہ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر ناجائز طور سے بنے مندروں کے پیچھے لوگوں کی آستھا نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ لوگ اس کی آڑ میں پیسہ کما رہے ہیں۔ قریب 7 سال پہلے سپریم کورٹ نے خالی زمین پر قبضہ کر ناجائز طریقے سے بنائے گئے پوجا استھلوں کے خلاف سخت گائڈ لائنس و ہدایات جاری کی تھیں۔ تب عدالت نے کہا تھا کہ سڑکوں، گلیوں ،پارکوں ، پبلک مقامات پر مندر، چرچ، مسجد یا گورودوارے کے نام پر ناجائز تعمیرات کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ لیکن اتنے برس بعد بھی اگر سپریم کورٹ کے حکم پر تعمیل یقینی نہیں کرائی جاسکی تو اس کے لئے ذمہ دار کون ہے؟ اور اس کے لئے کس کو ذمہ دار مانا جائے؟ ایسا لگتا ہے کہ ریاستی حکومتوں کے پاس ایسا نہ کرنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ تو تیار رہتا ہی ہے اور اس پر برسوں عمل نہیں ہوپاتا۔ 
یہ صحیح ہے کہ اوسطاً ہندوستانی دھارمک ہوتے ہیں اور وہ اپنے اپنے طریقے سے پوجا پاٹھ کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر خالی جگہ دیکھ کر وہاں ناجائز طریقے سے دھارمک استھل بنادئے جائیں۔ آخر ایسے مقامات پر ایشور کی ارادھنا کا کیا جواز ہے جو قاعدے قوانین کو نظر انداز کردیتے ہوں؟ زیادہ تر ایسے دھارمک استھلوں کی وجہ سے عام لوگوں کو پریشانی بھی ہوتی ہے۔ مذہب اور آستھا ایسے حساس مسئلے ہیں اس سے وابستہ کوئی بھی بات دخل سے پرے مان لی جاتی ہے بھلے ہی اس میں شخص یا گروپ کا ذاتی مفادکیو نہ ہو بلکہ اسے تب صحیح ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے جب اس سے دیش کے قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ دیش بھر میں بنائے گئے ناجائز پوجا ارادھنا مذہبی استھلوں کے بارے میں یہ سچ ہے کہ عموماً ہر جگہ شہر ہو یا محلے میں سڑکوں کے کنارے لوگ بغیر اجازت مندر بنا لیتے ہیں۔ اس میں نہ صرف سڑکوں کے کنارے، فٹ پاتھ یا دوسری جگہوں پر قبضہ جما لیا جاتا ہے بلکہ اس سے کئی بار تو راستے میں بھی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ سبھی فرقوں کے دھارمک گورو آگے آئیں اور اپنی طرف سے ان دھارمک استھلوں کو ہٹانے کی پہل کریں جو قاعدے قوانین کے برعکس بنے ہیں اور جن کی وجہ سے جنتا کو پریشانی ہوتی ہے۔ یہ سبھی مذاہب کے پیشواؤں کوکرنا چاہئے۔ ساتھ ہی عوام کے نمائندوں کو بھی اس میں مدد کرنی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟