راجدھانی میں بڑھتے ہٹ اینڈ رن حادثے

دہلی کے ایک طرف ہٹ اینڈ رن کے واقعات بڑھ رہے ہیں تو ادھر سڑکوں پرغنڈہ گردی کے معاملے اکثر سرخیوں میں چھائے رہتے ہیں۔ ہماری راجدھانی کی سڑکیں قبر گاہ بنتی جارہی ہیں۔ دہلی میں ہٹ اینڈ رن کے 2015 ء میں 1567 لوگ مارے گئے جبکہ سال2014ء میں 1671 لوگوں کی جان گئی۔ ان میں 50 فیصدی سے زائد معاملہ ہٹ اینڈ رن کے تھے۔ ان کی اہم وجہ تیز رفتار اور شراب پی کر گاڑی چلاناہے۔ حال ہی میں دھولہ کنواں علاقہ میں ایک نا معلوم گاڑی کی ٹکر سے بائک سوار تین لڑکوں کی موت ہوگئی۔ انہی دنوں دہلی کے سول لائن علاقے میں ایک نابالغ نے اپنی مرسڈیز سے سڑک پر چلتے ایک نوجوان کو کچل دیا۔ مرکزی محکمہ ٹرانسپورٹ کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق ہٹ اینڈ رن کے زیادہ تر واقعات رات میں ہوتے ہیں کیونکہ رات کو سبھی شاہراؤں پر مقامی پولیس اور ٹریفک پولیس نہیں رہتی اس وجہ سے ملزم ڈرائیور موقعہ پر حادثہ کرکے فرار ہوجاتا ہے۔ ہٹ اینڈ رن میں ویسے بھی سزا بہت کم ہے۔ ملزم کے خلاف لاپرواہی سے ہی موت کا معاملہ درج ہوتا ہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ سزا دو سال ہوتی ہے۔ نئے موٹر ایکٹ کے مسودے میں ملزم ڈرائیوروں کے خلاف سخت کارروائی کی کوئی بات نہیں کہیں گئی ہے۔ محض متاثرہ افراد کے رشتے داروں کو مرکزی سرکار ایک طے رقم بطورمعاوضہ دے گی۔ زخمیوں کے علاج کے لئے موٹر ایکسیڈنٹ فنڈ بنے گا۔ 2015ء میں 765 راہ گیر ایسے واقعات میں مارے گئے ہیں۔ قانونی پیچیدگیوں کا فائدہ اٹھا کر خاص کرنابالغ کے سنگین جرائم میں شامل ہونے کے معاملہ لگاتار سامنے آرہے ہیں۔ کچھ میں تو بڑے افسر ان کا استعمال بھی کرتے ہیں۔سول لائن علاقے میں تیز رفتار مرسیڈیز کار سے کچل کر نوجوان کی جان لینے والے نابالغ کے والد پر اکسانے کا مقدمہ درج کر دہلی پولیس نے مثبت کام کیا ہے۔ مجرمانہ معاملوں کے ایک وکیل نے بتایا کہ پولیس نے والد پر آئی پی سی کی دفعہ109 (واردات کے لئے اکسانا) کا مقدمہ درج کر ایک مثال پیش کی ہے۔ گذشتہ برسوں میں نابالغوں کے ذریعے ہٹ اینڈ رن کے حادثوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ معاملہ نابالغ سے وابستہ ہونے کی وجہ سے عموماً پولیس کے ہاتھ بندھ جاتے ہیں۔ یہ پہلی بار ہے جب پولیس نے خود آگے آکر ملزم کے والد پر کارروائی کی ہے۔ قانون میں اس طرح کے واقعات میں والد پر سیدھی کارروائی کرنے کا اختیار نہیں ہوتا لیکن اپنے نابالغ بچے کے ہاتھ میں گاڑی کی چابی دینے پر والد کے خلاف اکسانے کی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ ہٹ اینڈ رن معاملوں میں قانون کی دفعات اور سخت بنانے کی ضرورت ہے۔ دو سال غیر ارادتاً قتل کی سزا نا کافی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟