راشٹرپتی راجہ نہیں ،ان کے فیصلے پر بھی نظرثانی ہوسکتی ہے
اتراکھنڈ میں راشٹرپتی شاسن لگائے جانے کے مرکزی سرکار کے فیصلے کی سنوائی کررہے نینی تال ہائی کورٹ کے ذریعے راشٹرپتی شاسن کے نوٹیفکیشن کو رد کر دینے کے بعد ہریش راوت سرکار کی بحالی تو ہوگئی لیکن یہ فیصلہ مرکزی سرکار کے لئے ایک بڑا جھٹکا بھی ہے۔ راشٹرپتی شاسن سے قبل کی صورتحال بحال کرنے سے ہائی کورٹ کے حکم میں جمہوریت اور ہمارے پارلیمانی اور فیڈرل سسٹم کوبہتر طور پر چلانے کے کئی سبق ہیں۔ یہ سبق خاص کر ایسے دور میں ضروری ہوگئے ہیں جب ہمارا پارلیمانی ڈیموکریسی سسٹم کئی طرح کے سوالوں میں گھرتا جارہا ہے۔ سیاسی سبقت حاصل کرنے کی ہوڑ اس قدر کڑواہٹ بھرا ماحول پیدا کررہی ہے کہ قائم شدہ مریاداؤں اور سنستھانوں کا خیال رکھنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی جارہی ہے۔ بیشک مرکزی سرکار اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چنوتی دے گی لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس فیصلے سے مودی سرکار اور بھاجپا کوزبردست دھکا لگا ہے۔ بھاجپا کے منتظم کار یہ کہہ کر اپنا بچاؤ نہیں کرسکتے کہ یہ کانگریس کا اندرونی معاملہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وجے بہو گنا اور ہرک سنگھ راوت کی لیڈر شپ میں ہریش راوت کے خلاف ہوئی بغاوت کے بعد بھاجپا اتراکھنڈ میں اروناچل پردیش جیسی صورتحال پیدا کررہی ہے جہاں کانگریس کے باغیوں کو ساتھ لیکر وہ سرکار بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اتراکھنڈ میں جیسے ونییوگ ودھیئک پر ودھان سبھا چیئر مین کے مبینہ طور پر طرفداری والے رویئے کو رد کرنے کیلئے راشٹرپتی شاسن لگانے اور کیندر سے ونییوگ ادھیادیش جاری کرنے کے لئے سنسد کا سیشن بیچ میں ختم کرنے کا طریقہ اپنایاگیااس کی مثال نئی ملتی ہے۔ہائی کورٹ نے اسے بیحد اعتراض آمیز اور مرکز کا بے معنی دخل مانا۔ پھر اگر ہریش راوت کی سرکار ممبران اسمبلی کی خریدو فروخت اور بھرشٹاچار میں ملوث تھی تو یہ کوئی معصوم ہی مان سکتا ہے کہ کانگریس داغی اور بھاجپا لیڈرشپ صاف ستھری ڈیموکریٹک مریاداؤں کے تحت اکھٹا ہوئے تھے۔ کورٹ نے صاف کردیا ہے کہ آئین کی دفعہ 356 کے غلط استعمال کو عدالتیں بہت سنجیدگی سے لیتی ہیں اور اس معاملے میں ذرا بھی کوتاہی انہیں منظور نہیں ہے۔ عدالت نے تو مودی سرکار پر جمہوریت کی جڑیں کاٹنے تک کا الزام لگادیا۔ اتنا ہی نہیں عدالت نے کانگریس کے 9 باغی ممبران اسمبلی کی ممبری ختم کرنے کے اسپیکر کے فیصلے کو بھی صحیح قرار دیتے ہوئے ہریش راوت کو 29 اپریل کو ودھان سبھا میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا حکم دیا۔ اس فیصلے کے بعد کانگریس میں خوشی کی لہر پھیل گئی اور نینی تال ہائی کورٹ کا فیصلہ پارٹی کے لئے آب حیات بن کر آیا ہے۔ کانگریس حکمت عملی ساز محسوس کررہے ہیں کہ فیصلے کے بعد راجیہ میں کانگریس پلس میں آگئی ہے۔ لوگوں کی ہمدردی اب ہریش راوت کے ساتھ ہوگی۔ یہ بھی کہ سپریم کورٹ میں چاہے جو بھی فیصلہ ہو لیکن عام لوگوں میں یہ پیغام چلا گیا ہے کہ اتراکھنڈ میں کانگریس سرکار کو غلط طریقے سے ہٹا کر راشٹرپتی شاسن لگایا گیا۔ لوگوں میں گئے اس پیغام کا کانگریس کو بڑا فائدہ ہونے کی امید ہے۔ ہمیں بھاجپا کے حکمت عملی سازوں کی حکمت عملی سمجھ نہیں آئی۔ ویسے بھی اگلے سال اتراکھنڈ میں اسمبلی چناؤ ہونے ہی تھے۔ راوت کی چنی ہوئی سرکار کو اتنی جلدی بھی ہڑبڑی میں گرانے کا کیا تک تھا؟ لوگوں کی ہمدردی اب کانگریس اور ہریش راوت کے ساتھ ہوگی اور ایسے میں راوت اگر مستقبل قریب میں یا وقت پر بھی چناؤ کا اعلان کردیتے ہیں تو کانگریس کو فائدہ مل سکتا ہے۔ اگر 29 اپریل کو ہریش راوت اپنی اکثریت ثابت کرلیتے ہیں تو بھاجپا اور مرکزی سرکار کی نئے سرے سے کرکری ہوگی۔ لیکن اگر کسی وجہ سے ایسا نہیں ہوتا تو بھاجپا کو اپنی اور ساتھ ہی جمہوریت کی جیت کا دعوی کرنے کا موقعہ تو ملے گا ہی۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گاویسے بہتر ہوتا کہ ہائی کورٹ راشٹرپتی پر نکتہ چینی نہیں کرتی نئے سیاسی ڈیولپمنٹ میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر 27 اپریل تک روک لگا دی ہے۔ جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس شیو کیرتی سنگھ کی بینچ نے حکم جاری کرکہا کہ اس پر سنوائی کی اگلی تاریخ تک راشٹرپتی شاسن رد نہیں کرے گا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں