وادی میں فوج کو بدنام کرنے میں کام آرہا ہے خلیج کا پیسہ

جس طرح وادی کشمیر میں پچھلے ایک عرصے سے علیحدگی و دہشت گردانہ سرگرمیاں تیزی سے بڑھی ہیں اس سے یہ لگتا ہے کہ کچھ عناصر ایسے ہیں جو لڑکوں کو بھڑکا رہے ہیں۔ وادی میں موجود دہشت گرد نیٹورک خون خرابے کے بجائے لوگوں کو بھڑکا کر فوج اور سکیورٹی فورس کو بدنام کرنے کی منظم حکمت عملی پر کام کررہے ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں نے وزارت داخلہ کو بھیجی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندواڑہ کی واردات دہشت گردی اور علیحدگی پسندی نیٹورک کا نتیجہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق وادی میں موجود مرکز مخالف گروپ جموں و کشمیر میں پی ڈی پی ۔ بھاجپا سرکار کے لئے دباؤ رکھنے کے لئے ان کرتوت میں برابر کا شریک ہے۔ ادھر خلیجی ممالک سے حوالہ کے ذریعے آرہا پیسہ کشمیر وادی میں ہماری سکیورٹی فورس کی دقتیں بڑھا رہا ہے کیونکہ خبر ہے کہ زیادہ تر ناجائز پیسہ کا استعمال صدیوں پرانی صوفی روایت سے نوجوانوں کو ہٹا کر انہیں کٹر پسندی کی طرف لے جانے کیلئے بنیاد بنانے میں ہورہا ہے۔ کشمیر وادی کے کئی حصوں میں مذہبی انجمنیں ابھر رہے ہیں۔ سکیورٹی تجزیوں کے مطابق یہ انجمنیں زیادہ تر نوجوانوں کو راغب کررہی ہیں۔ اس میں مذہب کی اس شکل کو پیش کیا جارہا ہے جس پر ممنوعہ آئی ایس آئی ایس اور القاعدہ جیسے دہشت گردانہ گروپ چل رہے ہیں۔ اس نئے رجحان سے بہت سے دھارمک نیتا پریشان ہیں کیونکہ وہ محسوس کررہے ہیں کہ نوجوانوں کی نئی پیڑھی کو کشمیر وادی کی صدیوں پرانی صوفی روایت سے بھٹکایا جارہا ہے۔ نئی مساجد کے لئے پیسے پر اٹھے سوال کے بیچ فوج اور پولیس اور سینٹرل سکیورٹی فورس کا خیال ہے کہ خلیجی ممالک میں ناجائز پیسے کی وسیع رقم وادی میں بھیجی جارہی ہے۔ فنڈ چھوٹی چھوٹی رقوم میں آتا ہے تاکہ اس کا پتہ نہ چل سکے ۔ پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب کے مطابق پچھلے سال 82 لڑکے دہشت گردی کی گرفت میں آئے۔ سکیورٹی حکام نے اسے ایک خطرناک رجحان قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ 1950کی دہائی میں دہشت گردی اور آج کے آتنک واد میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ابھی کے دہشت گردانہ گروپوں کی آئیڈیالوجی ،بھروسہ پہلے کے مقابلے زیادہ کٹر پسندی کا ہے۔ ایک سینئر افسر نے بتایا کہ کشمیر ’اکھل اسلامی کرن‘ سے گزر رہا ہے اور نوجوان یہ بات جان کر بھی دہشت گردی کا راستہ اپنا رہے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسا کرنے سے وہ اپنی موت کو للکار رہے ہیں۔ ایک خفیہ افسر نے بتایا کہ خلیج ممالک میں اپنے ادارے رکھنے والے کچھ کاروباری گھرانے اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر اوور انوائس پیش کررہے ہیں اور زیادہ پیسہ بھیج رہے ہیں۔ بھارت سرکار کو بلا تاخیر ایسے پیسے پر پابندی لگانے کے طریقے تلاشنے ہوں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟