طلاق، کثیر شادی نظام میں اصلاح کی پہل کریں علماء
ایک ساتھ تین بار طلاق کہہ کر طلاق دینے اور کثیر شادیوں پر روک لگانے کی بحث کے درمیان دیش کی کئی مسلم انجمنوں کے نمائندے، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے کہا ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور علماء اس میں اصلاح کے لئے پہل کریں۔ لیکن حکومت اور عدالتوں کا دخل نہیں ہونا چاہئے۔ سپریم کورٹ میں سائرہ بانوں نامی خاتون کی طرف سے ایک ساتھ تین طلاق و کثیر شادی کے خلاف دائر عرضی پر عدالت عظمیٰ کے ذریعے مرکزی حکومت سے جواب مانگے جانے پر یہ بحث چھڑ گئی ہے۔ مشاورت کے چیئرمین نوید حمدی نے کہا کہ اس معاملے پر ایک ساتھ تین طلاق پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کو گہرائی سے غور کرنا چاہئے،ایران اور سعودی عرب جیسے ممالک میں اس پر بات چیت ہوئی ہے اور تبدیلی بھی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا ایک ساتھ تین بار طلاق کہہ کر طلاق دینے کا نظام خاص طور سے بھارت ، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہے۔ پاکستان میں قانون کے ذریعے اس میں تبدیلی کی گئی ہے لیکن ابھی بنیادی سطح پر یہ عمل میں نہیں آسکی ہے۔حمید نے کہاکہ علماء دین کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ قرآن اور شریعت کے دائرے میں رہ کر اس میں کیا اصلاح ہوسکتی ہے۔ مسلم سماج کے ایک حصہ کی یہ اپیل ایسے وقت میں آئی ہے جب عدالت عظمیٰ میں اس مسئلے پر سماعت چل رہی ہے۔ غور طلب ہے کہ اس عرضی کے ذریعے سائرہ بانو نامی خاتون نے شوہر کے ذریعے تین مرتبہ طلاق بول کر طلاق دینے اور کثیر شادی نظام کو غیر قانونی قرار دینے کی اپیل کی ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس طرح سے ایک طرفہ طلاق نہ سمجھی ہے اور اس عمل کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔ ادھر مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک ساتھ تین طلاق کو جائز قراردیا ہے۔ بورڈ نے تین طلاق، گزارہ بھتہ، چار شادیاں جیسے معاملوں میں شریعت قانون کے خلاف آرہے عدالتی فیصلے کو پرسنل لاء بورڈ نے شریعت میں دخل اندازی مانا ہے۔ ساتھ ہی بورڈ اتراکھنڈ کی باشندہ سائرہ بانو و ایک دوسرے معاملے میں سپریم کورٹ میں اپنی پیروی خود کریں گے۔ پرسنل لاء بورڈ نے یہ فیصلہ گزشتہ سنیچر کو لکھنؤ کی دین درسگاہ ندوی کے مہتمم مولانا سید رابع حسنی ندوی کی صدارت میں ایگزیکٹو کی میٹنگ میں لیا۔ لوگ چاہیں گے کہ اصلاح کی پہل علماء کی طرف سے ہو لیکن وہ آنا کانی کریں گے تو خودکو بے جواز ہی ثابت کریں گے۔ یوں تو لڑکیوں کی حالت سبھی فرقوں میں قابل رحم ہے لیکن مسلم خواتین کی حالت کہیں زیادہ خراب ہے۔ منظم ہوکر اپنی آواز اٹھانا ان کے لئے زیادہ مشکل ہورہا ہے۔ کہنا کا مطلب یہ ہے کہ مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کے اندیشے یا مانگ مذہب میں دخل اندازی کے طور پر دیکھنے کے بجائے اس مسئلے پر چھڑی بحث کوآج کے مسلم سماج کی حالات کے طور پر دیکھا جائے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں