اتراکھنڈ میں صدر راج برقرارعدالت نے پوچھے سوال

اترکھنڈ میں صدر راج جاری رہے گا اور 29 اپریل کو اسمبلی میں ہونے والے فلو ر ٹیسٹ پر بھی روک برقرار رہے گی۔ سپریم کورٹ نے بدھوار کواپنی سماعت کے دوران اتراکھنڈ میں صدر راج ہٹانے کے نینی تال ہائی کورٹ کے فیصلے پر لگی روک کو جاری رکھنے کا فیصلہ لیا۔ جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس شیو کیرتی سنگھ کی ڈویژن بنچ نے اپنے فیصلے میں کئی اہم سوال اٹھائے ہیں۔ بنچ نے کہا لاکھ ٹکے کا سوال ہے کہ کیا اسمبلی کی کارروائی کی بنیاد پر مرکزی کیبنٹ اتراکھنڈ میں صدر راج لگانے کی سفارش کرسکتا ہے؟ گورنر کے کردار پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں اور صاف صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ گورنر نے آرٹیکل 175(2) کے تحت فلور ٹسٹ روکنے کا پیغام بھیجا تھا؟ اور کیا گورنر ایسا کرسکتے ہیں؟ یہ بھی سوال کیا گیا کہ فلور ٹیسٹ میں دیری ہونا کیا صدر راج نافذ کرنے کی بنیاد ہوسکتی ہے؟کیا منی بل گورنر کے پاس بھیجنے میں دیری صدر راج کی بنیاد ہوسکتی ہے؟ ریاست میں بل پاس ہوا تھا یا نہیں، کیا دہلی سے طے کیا جائے گا؟ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اسٹنگ آپریشن صحیح ہے تو بھی یہ صدر راج کی بنیاد نہیں ہوسکتا۔ پہلے ہی ایس آر بومئی اور رامیش پرساد کے سلسلے میں سپریم کورٹ یہ کہہ چکی ہے کہ کسی بھی حالت میں فلور ٹیسٹ ہی ایک راستہ ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ کانگریس سمیت اپوزیشن کی جیت مانی جائے گی۔ مرکزی سرکار کو اس کے لئے اب کافی ہوم ورک کرنا ہوگا اور ایسے ثبوت پیش کرنے ہوں گے جس کی بنیاد پر عدالت کو محسوس ہو کہ حالات بالکل بے قابو ہوگئے تھے اور اس دوران صدر راج ہی ایک واحد حل بچا تھا۔صدر راج والا نوٹیفکیشن کو پارلیمنٹ کی منظوری دلانی ہوگی۔ اس طرح اتراکھنڈ معاملے میں کانگریس کی حمایت میں ساری اپوزیشن کھڑی ہوگئی ہے اس سے تو لگتا نہیں کہ کم سے کم راجیہ سبھا میں مرکزی سرکار اپنے مقصد میں کامیاب ہو پائے گی۔ آئینی ماہرین کا صاف صاف کہنا ہے کہ سرکار کے لئے یہ مجبوری ہے کہ وہ دو ماہ کے اندر نوٹیفکیشن کو پارلیمنٹ میں منظور کروائے۔ نئی سرکارکی تشکیل کا اگر راستہ نکلتا ہے تبھی مرکز پارلیمنٹ کی منظوری کی فضیحت سے بچ سکتا ہے یعنی مرکزی سرکار کے سامنے فلور ٹیسٹ ہی واحد متبادل بچتا ہے، جس کی مانگ اپوزیشن کانگریس کرتی آرہی ہے۔ اگر فلور ٹیسٹ ہوا تو پھر یہ بھی توجہ دینے والی بات ہے کہ اسمبلی اسپیکٹر گووند سنگھ کنجوال نے کانگریس کے 9 ممبران اسمبلی کو ڈسکوالیفائی کردیا تھا۔ اگر کورٹ کا فیصلہ حق میں نہیں آتا تو اسمبلی میں نمبروں کا کھیل پوری طرح بدل جائے گا۔ کانگریس نے ان 9 ممبران کو ڈسکوالیفائی کرانے کے اسپیکر کے فیصلے سے 70 نفری اسمبلی میں تعداد 61 رہ جائے گی۔ کانگریس نے ان 9 باغی ممبران میں راوت کے خلاف بغاوت کر بھاجپا سے ہاتھ ملا لیا تھا اور اگر ان کی ممبر شپ ختم ہوجاتی ہے تو یہ کانگریس کے لئے فائدہ مند ہوگا بھاجپا کے لئے نقصاندہ۔ کانگریسیوں کو امید ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔ بھاجپا یہ امید لگائے بیٹھی تھی کہ معاملہ آئینی بنچ کے حوالے ہوجائے گا لیکن دونوں کی حسرت پوری نہیں ہوئی۔ بھاجپا اور کانگریس اپنے اپنے سطح پر 29 اپریل کو طاقت آزمائی پر لگی ہوئی تھیں اور اسی لحاظ سے حکمت عملی بھی بن رہی تھی۔ لیکن پورے معاملے میں ایک اور تاریخ ملنے کے بعد حالات اب بدل گئے ہیں۔ اب ہفتے بھر تک سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیں کا شور رکنے کے آثار ہیں۔ یا یوں کہیں کہ سپریم کورٹ کے ذریعے دی گئی تاریخ ہفتے بھر تک ریاست کی سیاسی سرگرمیوں کے لئے اسپیڈ بریکر بن گئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!