سپریم کورٹ کے ذریعے لوک آیکت تقرری، اکھلیش سرکار کیلئے کرارا جواب

لوک آیکت کی تقرری کے معاملے میں سپریم کورٹ نے اترپردیش سرکار کو ایک ناقابل یقین جھٹکا دیا ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ سپریم کورٹ کے بار بار کہنے کے بعد بھی جب اکھلیش سرکار نے لوک آیکت مقرر نہیں کیا تو عدالت نے بدھوار کو اپنے آئینی اختیاروں کا استعمال کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے سبکدوش جج وریندر سنگھ کو آن اسپاٹ لوک آیکت مقرر کردیا۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے جب لوک آیکت کی تقرری کے لئے سپریم کورٹ نے اپنے آئینی اختیار کا استعمال کیا ہے۔ جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس این وی رمن کی بنچ نے لوک آیکت کے لئے پانچ مجوزہ ناموں کی فہرست میں بنا کسی دیری ان میں سے ایک جج وریندر سنگھ کو چن لیا پر اس تقرری پر تنازع کھڑا ہوگیا۔ یوپی سرکار نے سپریم کورٹ کو جو نام تجویز کئے ان پر الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ ان سے منظوری نہ لئے جانے سے خفا ہوگئے۔ انہوں نے اس بارے میں گورنر رام نائک کو خط لکھا جس کی کاپی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی بھیجا ہے۔ راج بھون نے ان کے خط کی کافی چیف منسٹر اکھلیش یادو کو بھیج کر سرکار کا نظریہ پوچھا ہے۔ پورے معاملے میں چیف جسٹس کی سرگرمی کی دو وجہیں مانی جارہی ہیں۔ پہلی یہ کہ انہوں نے سرکار کے سامنے غیر جانبداری کا سوال رکھا تھا کہ تجویز شدہ لوک آیکت وریندر سنگھ یادو ایک کیبنٹ منتری کے رشتے دار ہیں اور ان کا بیٹا ایس پی کا ضلع ادھیکش ہے۔حالانکہ خود وریندر سنگھ بیٹے کے ایس پی سے تعلق کو قبول کررہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ بیٹے کا اپنا فیصلہ ہے۔دوسری وجہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ان کے کردار پر سوال اٹھنا ہے۔ سپریم کورٹ نے 15 دسمبر کو کہا تھا کہ اگر بدھوار تک سرکار لوک آیکت مقرر نہیں کرتی ہے تو کورٹ یہ مان لے گی کہ گورنر اور سی ایم اپنی ڈیوٹی میں ناکام رہے۔ سپریم کورٹ کسی بھی معاملے میں مکمل انصاف کرنے کیلئے اپنا حکم منوانے کیلئے قانون نہ ہونے کی حالت میں قانون کے روپ میں حکم دینے کیلئے کسی بھی کورٹ میں حاضری یقینی کرنے، کسی دستاویز ڈھونڈھنے یا پیش کرنے، جانچ شروع کرنے اور اپنی ہتک عزت پر سزا دینے کے لئے دفعہ142 کے تحت احکامات پاس کرسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ذریعے لوک آیکت چننے کیلئے میعاد مقرر کردئے جانے کے باوجود یوپی سرکار جس طرح اپنے فرائض کو نبھانے میں ناکام رہی وہ عدالت کی نافرمانی کی وجہ سے افسوسناک تھی۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے جب ہائی کورٹ نے ریاستی لوک سیوا آیوگ کے متنازعہ چیئرمین کی تقرری کو غیر آئینی قراردیا تھا، جس کے بعد سرکار کو انہیں ہٹانا پڑا تھا۔ اس کے بعد اب نئے لوک آیکت کے لئے خود عدالت عظمیٰ کا آگے آنا سرکار کے کام کاج اور ارادے پر منفی نکتہ چینی تو ہے ہی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟