16 سال کی عمر میں بھی اب سخت سزا!

آخر کار دیش اوردنیا کو دہلا دینے والے گھناؤنے نربھیہ کانڈ جیسے جرائم میں نابالغوں کے شامل ہونے پر ان کے خلاف بالغ جرائم پیشہ افراد جیسا برتاؤ کرنے سے متعلق بل منگل کے روز راجیہ سبھا میں پاس کردیا۔لوک سبھا پہلے ہی اس کو پاس کرچکی تھی۔ بیشک جوینائل جسٹس ایکٹ نام سے مقبول ہوا یہ بل جن حالات میں پاس ہوا اس پر تشفی ظاہر نہیں کی جاسکتی۔ لوک سبھا میں اس بل کو دو اجلاس پہلے اسی برس مئی میں پاس کردیا گیا تھا لیکن کانگریس کی ضد اور زبردستی کی سیاست کے سبب سخت قانون کی کمی میں ایتوار کو ہی نربھیہ کے نابالغ ماسٹر مائنڈ قصوروار کو اصلاح گھر سے مجبوراً رہا کرنا پڑا۔ جب وہ رہا ہوگیا اور نربھیہ کے والدین نے موثر ڈھنگ سے اس کے خلاف احتجاج کیا تب جاکر کانگریس اور دیگر پارٹیوں کو ہوش آیا۔ انہوں نے آناً فاناً میں نیا بل پاس کروادیا۔ اس سیشن میں بھی یہ بل تین بار فہرست میں درج کیاگیا لیکن اپوزیشن پارٹی اور خاص کر کانگریسی ہنگامہ کرتے رہے۔ یہ سارے دیش کے لئے نہایت شرم کی بات ہے کہ ہم سیاست کے سبب دیش کو اور زیادہ شرمسار کرنے والے دہلی کے اجتماعی گینگ ریپ معاملے میں شامل رہے نابالغ کی رہائی ہوگئی۔ اس بل کے قانون بننے پر 7 سال یا اس سے زیادہ سزا کی سہولت گھناؤنے جرائم میں 16 سال سے اوپر کے لڑکوں پر بھی بالغ مجرموں کی طرح مقدمہ چلے گا۔ جن جرائم میں 7 سال یا اس سے زیادہ کی سزا کی سہولت ہے انہیں گھناؤنے جرائم کی فہرست میں شامل کیا جائے گا۔ اس بل میں گھناؤنے جرائم کرنے والے 16 سے18 سال کے لڑکوں کے خلاف بالغوں کی طرح مقدمہ چلانے کی سہولت ہوگئی ہے۔ اس میں قتل ،بدفعلی، اغوا اور ڈکیتی، تیزابی حملے جیسے جرائم کو گھناؤنے جرائم میں شمارکیا گیا ہے حالانکہ ان جرائم کے قصوروار نابالغ کو زیادہ سے زیادہ 7 اور10 سال کی سزا ہوگی۔ بل کو پیش کرتے ہوئے خواتین و اطفال بہبود ترقی محترمہ مینکا گاندھی نے کہا کہ اس کا مقصد نابالغوں کے ذریعے کئے جانے والے جرائم سے نمٹنا ہے۔ اس سے ہی انہیں صحیح راستے پر لانے کے قدم بھی اٹھائے گئے ہیں۔ جوینائل جسٹس بورڈ یہ فیصلہ کرے گا کہ آبروریزی اورقتل جیسے سنگین معاملوں میں نابالغ کے شامل ہونے کے پیچھے منشا کیا تھی؟ بورڈ طے کرے گا کہ یہ حرکت بالغ ذہنیت سے کی گئی یا بچپنے میں، کچھ ترمیم بھی کی گئی ہیں لیکن سبھی مسترد ہوگئیں۔ ویسے بتا دیں کہ کچھ دیگر ممالک میں اس بارے میں قانون ہے۔ چین میں 14 سال سے کم عمر کے لڑکوں سے پوچھ تاچھ نہیں کی جاسکتی۔15 سال سے کم عمر کے لڑکوں کو حراست میں بھی نہیں رکھا جاسکتا۔ پاکستان میں 18 سال سے کم عمر کے لڑکوں کو حراست میں نہیں لیا جاتا۔ سری لنکا میں 16 سال سے کم عمر کے لڑکوں کی گرفتاری نہیں کی جاسکتی، ایسے ہی بنگلہ دیش میں بھی گرفتاری پر روک ہے۔ بھارت میں گزرتے برس یعنی 2014ء میں نابالغوں کے خلاف دیش بھر میں38565 معاملے درج ہوئے۔ یہ جانکاری وزیر مملکت ہری بھائی پارتھی بھائی چودھری نے لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں دی۔ جوینائل جسٹس ایکٹ میں ترمیم وقت کی ضرورت تھی۔ اگر وقت رہتے پورا کیا جاتا تو دیش میں کہیں زیادہ تشفی ہوتی۔ تین سال گزرنے کے بعد میں نربھیہ کے ملزم کورٹ کچہری میں پھنسے ہوئے ہیں۔ قانون تو بن گیا ٹھیک ہے لیکن جب تک ہم اپنے دیش کا عدلیہ نظام بہتر نہیں کرتے معاملوں میں نہ تو متاثرہ کو انصاف ملے گا اور نہ ہی دوسروں کے لئے سبق۔ پھر سماج بھی اپنی ذمہ داریوں سے بچ نہیں سکتا۔ سارا قصور پولیس اور انتظامیہ کا یہ کہنا بھی غلط ہے۔ صاف ہے کہیں نہ کہیں سماج کو بھی اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ اس طرح جرائم پر روک لگانے کیلئیکنبہ جاتی سشح پر بھی احتجاج برتنے اور موضوع ماحول کو بہتر بنانا انتہائی ضروری ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟