جج پاردیوالا پر مقدمہ چلانے کی عرضی

گجرات ہائی کورٹ کے عزت مآب جج جے ۔ بی پاردیوالا کو ایک رائے زنی انہیں اتنی بھاری پڑے گی کہ شاید انہوں نے کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ نوبت اب ان کے خلاف امپیچمنٹ (ایوان میں مقدمہ)چلانے تک آگئی ہے۔ہوا یہ ہے کہ ہاردک پٹیل معاملے میں ریزرویشن کے خلاف متنازعہ تبصرہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ اگر مجھے پوچھا جائے کہ کونسی دو باتیں ہیں جنہوں نے دیش کو برباد کیا ہے یا صحیح سمت میں دیش کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہے تب میرا جواب ہوگا پہلا ریزرویشن اور دوسرا کرپشن۔ہمارا آئین بنا تھا تب ریزرویشن 10 سال کے لئے رکھا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے آزادی کے 65 سال بعد بھی ریزرویشن بنا ہوا ہے۔ یہ معاملہ راجیہ سبھا میں اٹھاتے ہوئے سپا کے ممبران نے جمعہ کے روزچیئرمین حامد انصاری کے سامنے ایک عرضی پیش کی تھی کہ ہاردک پٹیل معاملے میں ریزرویشن کے خلاف مبینہ تبصرے کے لئے گجرات ہائی کورٹ کے جج جے ۔ بی پاردیوالا کے خلاف امپیچمنٹ چلائی جانی چاہئے۔ ممبران پارلیمنٹ نے الزام لگایا ہے کہ ہاردک پٹیل کے خلاف ایک مخصوص مجرمانہ معاملے کے بارے میں داخل عرضی پر فیصلہ دیتے ہوئے توہین آمیز ریمارکس کا ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ جج نے یہ بھی تشریح کی کہ جب ہمارا آئین بنایا گیا تھا تب سمجھا گیا تھا کہ ریزرویشن 10 سال کے لئے ہی رہے گا لیکن بدقسمتی سے یہ آزادی کے 65 سال بعد بھی جاری ہے۔ ممبران پارلیمنٹ نے کہا کہ 10 برس کی میعاد سیاسی ریزرویشن کے لئے بڑھائی گئی تھی جو مرکز اور ریاستی اسمبلیوں میں درجہ فہرست ذاتوں اور شیڈول قبائل برادریوں کے لئے نمائندگی ہے نہ کہ تعلیم اور روزگار کے سیکٹر میں ریزرویشن کے سلسلے میں ۔ عرضی کے مطابق یہ تکلیف دہ ہے کہ جسٹس پاردیوالا درجہ فہرست برادریوں اور شیڈول جاتیوں کے لئے پالیسی سے متعلق یہ آئینی تقاضے سے الگ ہے۔ ممبران نے کہا کہ کیونکہ جج کے تبصرے کو عدلیہ کی کارروائی میں جگہ ملی ہے یہ چیز غیرآئینی ہے اور بھارت کے آئین کے تئیں عدم وفاداری کے برابر ہے جو امپیچمنٹ کے لئے ایک بنیاد تیار کرتی ہے۔ ممبران نے راجیہ سبھا کے چیئرمین حامد انصاری سے جسٹس پاردیوالا کے خلافامپیچمنٹ کی کارروائی شروع کرنے کی اپیل کی ہے اور ساتھ ہی ضروری دستاویز بھی نتھی کئے ہیں۔ گجرات سرکار نے دلیل دی کہ پیراگراف۔62 میں کی گئی رائے زنیوں کو معاملے سے ہٹایا جائے جسے ہائی کورٹ نے منظور کرلیا اور متنازعہ پیراگراف کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اب امپیچمنٹ کا ریزولیوشن کا آگے کیا ہوگا؟ سینئر وکیل کے ۔ ٹی۔ ایس ۔تلسی نے کہا کہ امپیچمٹ عرضی دی جاچکی ہے۔ جب تک جج پارلیمنٹ کو لکھ کر نہیں دیتے کہ تبصرہ ہٹا لیا ہے تب تک کارروائی چلے گی۔ آئین کے ماہر سبھاش کشپ کا کہنا ہے کہ امپیچمنٹ ریزولوشن دو ہی صورتوں میں ختم ہوگا۔ پارلیمنٹ ریزولوشن واپس لے یا چیئرمین جج کی تحریری یقین دہانی سے مطمئن ہوں۔ ممبران کی عرضی پر دستخط کرے والوں میں کئی سینئر ایم پی ہیں۔ ان میں آنند شرما، دگوجے سنگھ، اشونی کمار، بی جے پی کے ہری پرساد،پی ایل پنیہ، راجیو شکلا، امبیکا سونی، آسکر فرنانڈیز(سبھی کانگریس) ڈی راجا (ماکپا) کے ایچ بال گوپال (بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی) شرد یادو (جنتادل یو) ایس سی مشرا و نریندر کمار کشپ (بی ایس پی) ترچیوشیوا(ڈی ایم کے) و ڈی پی ترپاٹھی (این سی پی) راجیہ سبھا میں ایسے ریزولوشن پیش کرنے کیلئے کم سے کم 100 ممبران پارلیمنٹ کی دستخط ضروری ہیں۔ لوک سبھا میں ضروری تعداد100 ہے جبکہ راجیہ سبھا میں تو ایک طرح سے راستہ صاف ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟