کثیر شادی کیلئے قرآن کی غلط تشریح نہ کریں: عدالت
ویسے تو ہمارے مسلم سماج میں بہت بیداری آچکی ہے اور عام طور پر ہمارے زیادہ تر مسلمان بھائی ایک ہی شادی کرتے ہیں لیکن پھر بھی کچھ کم پڑھے لکھے پسماندہ طبقے سے جڑے مسلمان آج بھی ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں۔ اور ایسا کرنے کے لئے قرآن شریف کا غلط سہارا لیتے ہیں۔ حال ہی میں گجرات ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں ایک اہم تبصرہ کیا۔ گجرات ہائی کورٹ نے کڑے الفاظ میں حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کیلئے مسلم مردوں کے ذریعے قرآن شریف کی غلط تشریح کی جارہی ہے اور یہ لوگ مفاد پرستی کی وجہ سے کثیر شادیوں کی شق کا غلط استعمال کررہے ہیں۔ جسٹس جے۔ وی پاردیوالا نے یہ بھی کہا کہ اب وقت آگیا ہے جب ملک کامن سول کوڈ کو اپنانے کیونکہ ایسی گنجائشات آئین کی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس نے انڈین پینل کوڈ کی دفعہ494 سے جڑے آرڈر سناتے ہوئے یہ تبصرے کئے۔آئی پی سی کی یہ دفعہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے سے جڑی ہے۔ اپیل کنندہ جعفر عباس مرچنڈ نے ہائی کورٹ سے رجوع کرکے اس کے خلاف اس کی بیوی کے ذریعے درج کرائی گئی ایف آئی آر کو خراج کرنے کی گزارش کی تھی۔ بیوی نے الزام لگایا تھا کہ جعفر نے اس کی مرضی کے بنا کسی دیگر خاتون سے شادی کی ہے۔ایف آئی آر میں جعفر کی پتنی نے اس کے خلاف آئی پی سی کے دفعہ 494 (شوہر یا بیوی کے زندہ رہتے ہوئے دوبارہ شادی کرنا)کا حوالہ دیا۔ حالانکہ جعفر نے اپنی اپیل میں دعوی کیا تھا کہ مسلم پرسنل لاء مسلمانوں کو چار بار شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے اور اسی لئے اس کے خلاف دائر ایف آئی آر جانچ کے دائرے میں نہیں آتی۔جسٹس پاردیوالا نے اپنے آرڈر میں کہا مسلمان مرد ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کے لئے قرآن کی غلط تشریح کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قرآن میں جب کثیر شادی کی اجازت دی گئی تھی تو اس کی ایک مناسب وجہ تھی۔ آج جب مرد اس گنجائش کا استعمال کرتے ہیں تو وہ ایسا مفاد کی وجہ سے کرتے رہیں۔ کثیر شادی کا قرآن میں صرف ایک بار ذکر کیا گیا ہے اوریہ شرط کثیر شادی کے بارے میں ہے۔ عدالت نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ وہ ایک بیوی کے ساتھ غلط سلوک کرے۔ اسے گھر سے باہر نکال دے، جہاں وہ بیاہ کر آئی تھی اور اس کے بعد دوسری شادی کرلے۔ حالانکہ ایسی حالت سے نمٹنے کے لئے دیش میں کوئی قانون نہیں ہے اس دیش میں کوئی کامن سول کوڈ نہیں ہے۔ عدالت نے اپنے آرڈر میں کہا جدید پرگتی شیل سوچ کی بنیادپر بھارت کو اس رسم کو ختم کرنا چاہئے اور کامن سول کوڈ قائم کرنا چاہئے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے دوسری جانب کہا کہ دیش کے مسلمان عدالتوں کا سنمان کرتے ہیں لیکن شرعی معاملوں میں عدالتوں کی دخل اندازی غیرضروری ہے جسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ لاء بورڈ کے سکریٹری و اسلامک فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ قانون بنانا عدالتوں کا کام نہیں ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ مسلم پرسنل لاء میں بدلاؤ کئے جانے کی ضرورت ہے، غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ عدالت کی عزت کرتے ہیں لیکن عدالتوں کو اپنی حد پار کرنے کی جو کوشش کی جارہی ہے وہ فکر کا موضوع ہے۔دیش میں اس وقت مسلمانوں کو بے وجہ پریشان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو قابل مذمت ہے۔مولانا نے سپریم کورٹ کے مسلم پرسنل لاء کے طلاق و کثیر شادی کے معاملے کی سنوائی کرنے کے فیصلے پر کہا کہ قانون بنانا عدالتوں کا کام نہیں ہے۔ آئین کے مطابق دیش کے مسلمانوں کو جو حق دئے گئے ہیں ان کی خلاف ورزی کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں