پھڑنویس حکومت: مدرسے اسکول نہیں

مہاراشٹر حکومت مدرسوں میں اسکولی تعلیم ضروری کرنے کے لئے ایک بڑی چال چلی ہے جن مدرسوں میں ریاضی اور سائنس اور انگریزی نصاب نہیں پڑھائے جاتے انہیں اسکول ماننے سے انکار کردیا ہے۔ سرکار کا پیغام صاف ہے کہ اگر سرکاری گرانٹ چاہتے ہیں تو مدرسوں کو اپنے نصاب میں باقاعدہ طور پر اسکولی نصاب کو شامل کرنا ہوگا۔ حکومت کے اس فیصلے سے ایک نیا سیاسی بکھرا شروع ہوگیا ہے لیکن مہاراشٹر کے وزیرتعلیم ونود تاوڑے کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں کرنے سے تعلیم کا حق قانون کے تحت مدرسوں میں پڑھنے والوں بچوں کو اسکولی تعلیم علم نہیں مانا جاسکتا ہے۔ اس وقت مہاراشٹر 1900 مدرسے ہیں جن میں ایک لاکھ 80 ہزار سے زیادہ بچے پڑھتے ہیں اور مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہیں اس فیصلے کو حمایتی مل رہی ہیں اور احتجاج بھی ہورہے ہیں اکھل مہابھارت ہندو مہاسبھا کے قومی سکریٹری جنرل منا کمار شرما نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے شرما نے کہا ہے کہ اس سے مدرسوں کے تعلیمی معیار میں بہتری ہوگی اور مسلم بچوں کو عمدہ تعلیم فراہم کرنے میں مدد ملے گی انہوں نے مسلم انجمنوں و مولاناؤں سے اپیل کی ہے کہ مدرسوں کو جدید اور اعلی سطح کے تعلیمی ادارہ بنانے میں مہاراشٹر حکومت کی کوششوں میں تعاون دیں ۔ دوسری طرف اے آئی ایم آئی ایم کے چیئرمین اسعدالدین اویسی نے سرکار کی پہل کے جواز پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ویدک تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو بھی اسکول کے دائرے سے باہر مانا جائے گا؟ انہوں نے کئی مدرسے ہے جو ریاضی انگریزی اور سائنس پڑھاتے ہیں مدرسو میں پڑھنے والے کئی طلباء آگے بڑھیں ہے۔ اور سول سروس امتحان میں بھی کامیاب رہے ہیں جمعیتہ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے کہا ہے کہ جو بھی ہوا ہے وہ نہ قابل قبول ہے اس قدم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کانگریس کے ترجمان سنجے نروپم نے کہاہے مذہب کی بنیاد پر مبنی کسی تعلیم علم کے ساتھ امتیاز نہیں ہوناچاہئے ہم اس مسئلے کو مہاراشٹر اسمبلی میں اٹھائیں گے۔ تقریبا آٹھ مہینوں میں پھڑنویس سرکار کا یہ تیسرا فیصلہ ہے جسے متنازعہ ماناجارہا ہے اس سے پہلے مسلم ریزرویشن ختم کرنے ، گؤ نسل ہتیا و گؤ ماس پر پابندی لگانے کے پھڑنویس سرکار کے فیصلوں پر مسلم سماج میں سخت رد عمل سامنے آیا ہے مرکزی حکومت نے اس فیصلے سے پیدا ہورہے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے مرکزی وزیرمختار عباس نقوی نے کہا ہے کہ مدرسے بھارت کی حقیقت ہے اور اس مسئلے پر کوئی سیاست نہیں ہونی چاہئے۔ ممبئی میں ایک افطار پارٹی میں شامل ہونے گئے مرکزی وزیرمملکت اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے کہا ہے کہ میں نے مدارس کو یقینی دہانی کرائی ہے کہ سرکار سبھی کے لئے تعلیم کے حق میں ہے اور میں انہیں یقین دلاناچاہتا ہوں کہ پیسے کی کمی نہیں ہوگی۔ حکومت ہند اسلامی تعلیمی اداروں کو تعلیم کے حق قانون کے تحت قومی دھارا کی تعلیم سسٹم میں شامل کرنے پر غور کرے گی۔ مہاراشٹر سرکار میں وزیراقلیتی امور اکناتھ کھڑ سے کا کہنا ہے کہ سرکار سبھی غیررسمی تعلیم حاصل کررہے بچوں کو قومی دھارا میں لاناچاہتی ہے تاکہ وہ بھی ترقی کی دوڑ میں پیچھے نہیں رہ جائیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟