بن بیاہی ماں کے حق میں تاریخی فیصلہ

ایک وقت اداکارہ نینا گپتا نے اپنی بیٹی مسابا کی بن بیاہی ماں بن کر شادی کے ضروری ہونے کے خلاف آواز اٹھائی تھی ۔ تب شاید ہی کسی نے سوچا ہوگا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب سپریم کورٹ ایسی سبھی ماؤں کو بچے کی کفالت کا قانونی حق دے دے گا۔ خاتون امپاور منٹ کے دور میں خواتین کے حق میں ایک سے بڑھ کر ایک فیصلہ بتاتے ہیں کہ مستقبل میں ان کی سماجی اصلیت اور ساکھ اور عزت میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دیش کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میں کہا ہے کہ بن بیاہی ماں کو اپنے بچے کی گارجین شپ پانے کے لئے بچے کے والد کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ اکیلے سرپرست یا بن بیاہی ماں اگر بچے کے برتھ سرٹیفکیٹ کے لئے درخواست دیتی ہے تو متعلقہ اتھارٹی کو برتھ سرٹیفکیٹ دینا ضروری ہے۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ عورت کی پرائیویسی کے احترام کے ساتھ ہی جنسی امتیازدور کرنے کی سمت میں واقعی میل کا پتھر ہے۔ایک غیر شادی شدہ ماں کے اپنے بچے کی سرپرستی کا حق حاصل کرنے سے متعلق معاملے میں دئے گئے اس فیصلے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ متعلقہ ماں بچے کو بچے کے والد کا نام عام کئے بنا ہی یہ حق حاصل کرسکتی ہے۔ اگر وہ حلف نامہ داخل کر تنہا سرپرستی لینے کی بات کہتی ہے تو برتھ سرٹیفکیٹ دینا ہوگا۔ موجودہ قانون کے مطابق گارجین اینڈ وارڈس ایکٹ اور ہندو ، مائینریٹری اینڈ گارجن شپ ایکٹ کے تحت والد سے رضامندی کے لئے اسے نوٹس بھیجنا ضروری ہوتا تھا۔ جسٹس وکرم جیت سین کی سربراہی والی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ گارجین شپ سے وابستہ چنندہ عرضیوں میں ماں کیلئے بچے کے والد کی پہچان عام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
عرضی میں والد کو پارٹی بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ آج کا سماج بدل گیا ہے، ایسی خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے جو خود بچوں کی کفالت کرنا چاہتی ہیں۔ ایسے میں اس طرح کی شرط رکھنا کہ ماں کو گارجین شپ دینے کے لئے والد کی اجازت ضروری ہے ،وہ بھی جب والد نہ تو بچے کو اپنے پاس رکھنے کا خواہشمند ہے اور نہ ہی اسے بچے سے کوئی مطلب ہے۔ مناسب نہیں ہے۔ ڈویژن بنچ کا کہنا ہے کہ ایک غیر ذمہ دار والد کے حق سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ کسی معصوم بچے کی بہبودی جو اسے ماں کی آغوش اور سرپرستی میں ہی مل سکتی ہے۔ اس فیصلے کا سب سے غور طلب پہلو یہ ہے کہ اب سرکار کو یہ یقینی کرنا ہوگا کہ برتھ رجسٹریشن نہ ہونے کی کسی وجہ سے کسی شہری کو پریشان نہ ہونا پڑے۔ ماں کی ممتا کو اس فیصلے کے ذریعے ایک بڑا مطلب ملا ہے کیونکہ غیر ذمہ دار باپ کو عام طور سے نوٹیفائی کئے جانے کی ضرورت نے الگ کردیا ہے۔ بن بیاہی ماں کے حق میں آیا فیصلہ قانونی جیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ ضرورت اس کے مطابق سماج کو بدلنے کی بھی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!