ممبر پارلیمنٹ کی تنخواہیں و مراعات بڑھانے کا مسئلہ

جیسے جیسے ہمارے عوامی نمائندوں کے برتاؤ اور کام میں گراوٹ آرہی ہے ویسے ویسے ان کی سہولیات کے مطالبے بڑھتے جارہے ہیں۔میں بات کررہا ہوں ہمارے ممبران پارلیمنٹ کی۔ بی جے پی ایم پی یوگی آدتیہ ناتھ کی سربراہی والی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی نے ممبران کی تنخواہیں اور دیگر سہولیات بڑھانے کی سفارش کی ہے۔ اس وقت ممبران پارلیمنٹ کو ماہانہ 50 ہزار روپے ملتے ہیں۔ بات یہیں تک محدود نہیں ہے۔ ممبران کا یومیہ بھتہ 2000 سے زیادہ کرنے اور سابق ایم پی کو پنشن بھی 75 فیصدی بڑھانے کی تجویز ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے ممبران پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ سال2010 میں ہوا تھا۔اس وقت ہوائی سفر میں 25 فیصد کرائے کی سہولت سے بھی ایم پی خوش نہیں ہیں۔کمیٹی نے 20 سے25 فیصد ہوائی سفر سمیت قریب60 سفارشات کی ہیں ان میں پرائیویٹ سکریٹری کیلئے فرسٹ کلاس اے سی ریل پاس کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ ایم پی گرام یوجنا کے تحت کچھ بھلا نہ ہوا عام لوگوں کے اچھے دن آئے نہ آئے لگتا ہے ممبران پارلیمنٹ کے تو آ ہی جائیں گے۔ سفارش کہتی ہے ممبران پارلیمنٹ کی صحت سہولیات میں ان کے بچوں کے علاوہ پوتے پوتیوں کو بھی شامل کرلیا جائے۔ غور طلب ہے کہ اپنے حلقے میں کام کرنے کیلئے ہر ایک ایم پی 45 ہزار روپے کا بھتہ ہر مہینے پانے کا حقدار ہے۔ آفس خرچ کیلئے بھی ماہانہ اتنی ہی رقم ملتی ہے۔ کپڑے اور پردے دھلوانے کے لئے ہر تیسرے مہینے50 ہزار روپے ملتے ہیں۔ سڑک کے راستے سفر کا استعمال کرنے والے ایم پی کو 16 روپے فی کلو میٹر کے حساب سے سفر بھتہ ملتا ہے لیکن یہ سب انہیں کم لگتا ہے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ ایم پی کچھ کام نہیں کرتے اور وقت وقت پر اپنے پیسے بڑھوا لیتے ہیں۔ دوسرا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ الگ الگ پارٹیوں کے ایم پی کسی بات پر متفق نہیں ہوتے صرف اپنے پیسے ،سہولیات بڑھانے کے اشو پر متحد ہوجاتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ ماننا ہوگا کہ ممبران پارلیمنٹ کی تنخواہ اور بھتے وقتاً فوقتاً بڑھنے چاہئیں۔ ابھی بھارت کے ایم پی کو جو تنخواہ ملتی ہے اتنی تنخواہ تو ہمارے یہاں سرکاری یا غیر سرکاری سیکٹر کے درمیانے درجے کے افسر کو ملتی ہے اور ایم پی بھی اس کے حقدار تو ہیں ہی کچھ سوال ضرور اٹھتے ہیں پہلا یہ کہ ممبران پارلیمنٹ کی تنخواہ طے کرنے کا اختیار ممبران پارلیمنٹ کو ہی کیوں؟ جمہوری نظام کا اصول ہے کہ کسی ادارے کے بارے میں اس طرح کے فیصلے میں غیر جانبدار اور واقف کارلوگوں کی سانجھے داری ہونی چاہئے۔ عام بات یہ ہے کہ جب اپنی تنخواہ خود طے کرنے کا حق نہیں تو ممبران پارلیمنٹ کو کیوں ہو؟ کیوں نہ ایسی کمیٹی میں ممبران پارلیمنٹ کے علاوہ نامور ماہرین قانون داں انتظامیہ کے ریٹائرڈ افسران اور شہریوں کو بھی لیا جائے۔ ممبران پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ سیشن کے دوران کیا بھتہ اس لئے ملتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کا کام ٹھپ کریں؟ ہمیں نے دیکھا ہے پارلیمنٹ کے کئی سیشن پوری پوری میعاد میں کوئی کام کام نہیں ہواصرف ہنگامہ ہوتا رہا۔ ایم پی اپنی تنخواہ ضرور بڑھائیں لیکن جوابدہی بھی بڑھائیں تب شاید اتنا تلخ رد عمل نہیں ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟