شیعوں پر بڑھتے حملوں سے خلیجی ممالک پریشان!

یہ مقدس رمضان کا مہینہ ہے لیکن دہشت گردوں کیلئے اس مقدس مہینے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ حالانکہ کہنے کو یہ اسلام کے نام پر لڑ رہے ہیں۔ چاہے جموں و کشمیر ہو چاہے کویت ہو، پاکستان ہو سعودی عرب ہو چاہے نائیجریا ہو سبھی مقامات پر بے قصوروں کو قتل کرکے یہ دہشت گرد پتہ نہیں اسلام کو کیسے بچا رہے ہیں؟ آئے دن خبر آتی رہتی ہے کہ دہشت گردوں نے مساجد پر حملہ کیا یا نماز پڑھتے ہوئے بے قصور شیعہ مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کو قتل کردیا۔ دہشت گرد تنظیم بوکو حرام نے شمال مشرقی نائیجریا کے دیہات میں گھس کر گھروں اور مساجد پر حملہ کرکے قریب 150 لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بوکوحرام کے قاتلوں نے گھروں پر موجود خواتین اور مساجد میں نماز ادا کررہے نمازیوں اور بچوں کو گولی کا نشانہ بنایا۔50 سے زائد بندوقچی آتنک وادیوں نے بدھ کے روز بورینو ریاست کے 3 دور دراز دیہات پر حملہ بول دیا۔ انہوں نے مقامی لوگوں کو قتل کرنے کے بعد ان کے گھروں کو آگ بھی لگادی۔ اس حملے کو پچھلے دو مہینوں میں کیا گیا سب سے بڑا حملہ بتایا جارہا ہے۔ مئی میں صدر محمد بہاری کے برسر اقتدار آنے کے بعد پہلی بار دہشت گردوں نے اس طرح سے موت کا خونی کھیل کھیلا ہے۔ لاشوں کی گنتی کرنے والے اوکابا گاؤں کے پولو نام کے ایک شخص نے بتایا کہ دہشت گردوں نے ان کے چچا کے پورے خاندان کو ختم کردیا ہے۔ ان کے ساتھ ان کے پانچ بچوں کو بھی ماردیا گیا۔ ادھر آئی ایس نے پہلی بار ایک خاتون کا سر قلم کیا۔ خلیجی ممالک کے وزرا نے شیعہ مساجد کو نشانہ بنا کر کئے جارہے حملوں کے خلاف متحد ہونے کا عزم ظاہر کیا ہے۔اسلامک اسٹیٹ کے جہادی گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری لی ہے۔ پچھلے جمعہ کو کویت میں ہوئے ایسے ہی حملے میں 26 لوگ مارے گئے تھے۔ خلیج اشتراک کونسل (جی سی سی) کے وزرا نے کویت میں ایک ہنگامی میٹنگ بلائی جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ یہ حملے خطے کے استحکام کیلئے خطرہ ہیں۔ پچھلے دو مہینے میں سعودی عرب اور کویت میں شیعہ مساجد پر ہوئے تین خودکشی حملوں میں قریب50 لوگ مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ سبھی حملوں کی ذمہ داری آئی ایس نے لی ہے۔ سنی جہادی گروپ شیعوں کو مذہب مخالب مانتے ہیں اور وسطی ایشیا میں انہیں آئے دن نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ میٹنگ کے بعد جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزرا نے اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کیلئے اٹھائے جانے والے قدموں کے لئے تال میل اور تعاون کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ مسئلہ ارب ممالک کی سلامتی و عدم استحکام کے لئے خطرہ ہے اس لئے وزرا نے اس سے مقابلہ کرنے کیلئے متحد ہونے کا فیصلہ کیا ہے لیکن مسئلہ سنگین ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟