ٹوٹا لیکن جھکا نہیں یونان، پیکیج مسترد

یونان یوروزون کا حصہ بنا رہے گا یا اس سے باہر نکلے گا اور اپنی روایتی کرنسی کی طرف لوٹ جائے گا۔ پچھلے دو برسوں سے جاری اس دلچسپ قیاس آرائی کا قصہ پچھلے ایتوار کو ختم ہوگیا۔ اقتصادی بحران سے لڑ رہے یونان میں ایتوار کو عوامی ریفرنڈم میں ووٹروں نے یوروپی فیڈریشن کے بیل آؤٹ پیکیج کے ریزولیوشن کو نامنظور کردیا۔ اب یونان کا یوروزون سے باہر نکل جانا تقریباً طے ہوگیا ہے۔ یوروپی یونین اور بین الاقوامی کرنسی فنڈ نے یونان سے قرض کے بدلے خرچوں میں کٹوتی کی سخت شرط رکھی تھی۔ اسے مانیں یا نہیں اسی پر ریفرنڈم کرایا گیا۔قرضے کے لئے سخت شرطوں کو مسترد کریونان کی عوام نے پی ایم سپرس پر بھروسہ جتایا ہے۔وزیر اعظم نے عوام سے No پر ووٹ ڈالنے کی اپیل کی تھی۔ یونان کو2018 تک 50 ارب یورو یعنی 5.5 ارب ڈالر کے نئے اقتصادی پیکیج کی ضرورت ہے۔ یوروپی یونین اور آئی ایم ایف نے اس کے لئے خرچوں میں کٹوتی کی سخت شرط رکھی تھی۔ اس سے پہلے بھی یونان کو2008 میں اور2010 میں بیل آؤٹ پیکیج دئے گئے تھے۔ 2010ء میں ای سی بی، آئی ایم ایف ، یوروپی یونین کمیشن نے قاہرہ کی مدد کے لئے اپنے خرچوں میں کٹوتی لانے کی شرط رکھی تھی۔معیشت کو خود کفیل بنانے کیلئے ٹیکس بڑھانے کی تجاویز رکھی گئی تھیں مگر یونان کے لوگوں کو یہ منظور نہیں تھا۔ اقتصادی بحران سے نکلنے کے لئے ملے بیل آؤٹ پیکیج کے باوجود یونان کی معیشت میں بہتری نہیں آئی۔ یونان کی بدحالی کے پیچھے اس کی تاریخ اور سیاست مانی جارہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ دیش لیفٹ اور ساؤتھ لیفٹ لوگوں کے درمیان تقریباً 30 سال تک چلی لمبی خانہ جنگی میں پھنس گیا تھا جس کا اثر معیشت کے ساتھ ساتھ سیاست پر بھی پڑا۔حالات تب اور بگڑ گئے جب1949 میں دیش میں معیشت اور سیاسی طور پر دیش کو کمزور کردیا گیا۔ تازہ بیل آؤٹ پیکیج میں جو شرطیں رکھی گئی ہیں وہ یونان کیلئے جان لیوا ثابت ہورہی ہیں۔ جہاں50 فیصدی سے زیادہ لوگ بے روزگار ہوں ،جن کے پاس نوکری ہے انہیں بھی تنخواہ کٹ کر مل رہی ہو، بوڑھے لوگوں کی پنشن مسلسل گھٹ رہی ہے اور جو بھی ملے وہ خیرات کی طرح۔ اتنے مایوس کن ماحول میں کوئی سماج کب تک جی سکتا ہے؟ جرمنی اور فرانس جیسے یوروزون کی بڑی طاقتوں کا کہنا ہے کہ قرض لیکر ہضم کرجانا کوئی راستہ نہیں ہے لہٰذا یونان تو ٹیکسوں کی وصولی بڑھا کر اور اپنے سرکاری خرچوں میں کٹوتی کرکے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور یورو پی یونین کمرشل بینک سے لئے قرضوں کی ادائیگی کرے یا پھر خود کو دیوالیہ اعلان کرکے اپنے حال پر جینا سیکھے۔ اس دھمکی کو جھیلتے رہنا یونان کی جنتا کے لئے ایک میعاد کے بعد ناممکن ہوگیا۔ انہوں نے طے کیا کہ آگے جو بھی ہوگا سو ہوگا ابھی اقتصادی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اگر انہوں نے اپنی خود اعتمادی کو بچا کر رکھا تو ان کے بچے امیروں میں سے نہ صحیح غریبوں میں سر اٹھا کر جی سکیں گے۔ دیش میں خدشات اور غیر یقینی ماحول ہے۔کھانے پینے کی چیزوں کی قلت بھی شروع ہوگئی ہے۔ سرکار کی طرف سے بینکوں کو بند کرنے کے اعلان کی وجہ سے دیش میں اے ٹی ایم پر لوگ قطاروں میں کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہی نہیں لوگ یونان کے مستقبل کو لیکر اس قدر اندیشات کا شکار ہیں کہ وہ کھانے پینے کی چیزیں جم کر خریداری کر انہیں جمع کررہے ہیں۔ یونان کے اس واضح مینڈیڈ کے بعد ایک راستہ یونان کو چپ چاپ یورو زون سے باہر کردینے کا ہے۔ ایسا ہوا تو اس دیش کے زیادہ تر بینک بیٹھ جائیں گے اور یہاں کی معیشت اور بگڑے گی۔ یورو زون کو اس کا نقصان یہ ہوگا کہ اس کی ساکھ مزید خراب ہوجائے گی۔ اگلا نمبر کس کا ہو سکتا ہے؟ بلغاریہ، رومانیہ، مخدونیہ کا یا پھر اسپین، پرتگال، اٹلی کا؟ دوسرا راستہ یونان کے لوگوں کے دل کی بات سننے ، ان کی مشکلیں کم کرنے اور یونان کو یورو زون میں بنائے رکھنے کی شرطیں نرم بنانے کا ہے۔ امید کی جاتی ہے یوروزون کے مہارتھی اس دوسرے راستے پر بڑھیں گے تاکہ عالمی معیشت میں اندیشات کی موجودگی کا دور ختم ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟