دیہی ہندوستان کی اصلیت بتا رہے ہیں اعداد وشمار
جس مردم شماری کا انتظارپچھلے 84 برس سے ہورہا تھا آخر کار اس کے اعداد وشمار مودی حکومت نے جاری کردیئے ہیں۔ لیکن یوپی اے حکومت کی شروع کردہ ذات پر مبنی مردم شماری پوری ہوگئی ہے لیکن اس کے اعداد وشمار جاری نہیں ہوپائے تھے اب مودی سرکار نے پورے دیش کے دیہات اور شہروں کو ملا کر کل 24.39 کروڑ گھروں اور کنبوں میں بانٹا ہے اس میں دیہاتی گھروں کی تعداد 17.91 کروڑ ہے جو تصویر سامنے آئی ہیں اسے لے کر ہمارے سبھی پالیسی سازوں کو سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دستیاب اعداد وشمار ظاہر کررہے ہیں جن دیہات غریبوں کسانوں اور مزدوروں کو لے کر بڑی بڑی باتیں کی جاتیں ہیں ان کی حالت ایک طرح سے تسلی بخش نہیں ہے آزادی ملنے کے بعد سے ہی دیش میں غرباء اور کسانوں کی حالت بہتر بنانے کی باتیں کی جاتی رہی ہیں۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے سب کی بہتری کے لئے پانچ سالہ منصوبوں کا آغاز کیا تھا ۔ اندرا گاندھی غریبی ہٹاؤ کانعرہ دیا تھا تو لال بہادر شاستری کا نعرہ دیا تھا جے جوان جے کسان کا نعرہ دیا تھا۔ آج سے قریب دہائی پہلے اصلاحاتی پالیسی کاآغاز کرنے کے پیچھے یہ بھروسہ تھا کہ اصلاحات کی لہر دیہی بھارت میں تبدیلی لائے گی لیکن زمینی حقیقت کچھ اور ہی دکھا رہی ہے۔ درمیانی طبقہ کی بڑھتی آبادی پر اتراتے اس دیش کے دیہات میں ابھی غریبی ہے اعداد وشمار کے مطابق دیش میں کل 24.39 کروڑ خاندان ہیں جس میں 17.91 کروڑ خاندان بھارت میں رہتے ہیں اور باقی شہروں میں ۔ ان میں 17.91 کروڑ دیہی خاندانوں میں سے 10کروڑ خاندان ہر طرح کے تجربات سے مقابلے آرا ہیں ان میں تقریبا آدھے خاندان پوری طرح سے بے زمین ہے یعنی ان کی زندگی مزدوری کرکے ہورہی ہیں یہ ان 18کروڑ خاندان میں سے ہے جوگاؤں میں رہتے ہیں صاف ہے کہ گاؤں کا دیش بدحال پوزیشن میں ہے قریب 18 کروڑ خاندان جو دیہات میں رہتے ہیں ان میں سے 5.39کروڑ یعنی 20.10 فیصدی کھیتی پر منحصر ہے دیہاتوں کی آدھی آبادی یعنی 9.16کروڑ خاندان یومیہ مزدوری پر زندہ ہے 44.84لاکھ خاندان دوسرے کے گھروں میں کام کرتے ہیں۔4.08لاکھ خاندان کچڑا اور کوڑا بنتے ہیں 6.68 خاندان بھیک مانگنے پر مجبور ہے بے شک اس آبادی سے کچھ غلط فہمی دور ہوگئی ہے مثلا یہ صاف ہوگیا ہے کہ کل دیہی خاندانوں کے قریب30 فیصدی زندگی کے لئے گزر بسر زراعت پر منحصر ہے یعنی زراعت پر آبادی کے کا بوجھ کچھ کم ہوا ہے حالانکہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کھیتی پر کم توجہ دی جائے بلکہ فی الحال سب سے ضروری دیہی بھارت کی تصویر بدلنا ہے ۔10 کروڑ محروم خاندانوں کو ترقی کی قومی دھارا میں لایا جاسکے ایک لمبے عرصے سے یہ محسوس کیاجارہاہے سرکاری پالیسیوں کو صحیح ڈھنگ سے نافذ کرنے اور خاص طور سے ان کافائدہ سماج کے آخری نکڑ پر کھڑے لوگوں تک پہنچانے کے لئے انتظام اور حکمرانی کے طور طریقے میں تبدیلی کی جائے لیکن ایسا کرنے کے لئے نہ تو کوئی ٹھوس کوشش ہورہی ہے اور نہ ہی زمینی حقیقت بدل رہی ہیں بھارت ایک زراعتی انحصار دیش ہے جب تک ہم دیہات کی حالت کونہیں بہتر بناتے تو صحیح معنوں میں بھارت آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔ وزیراعظم دیہی آنچل کی حالت بدلنے کے لئے ٹھوس کوشش کریں گے اور کسانوں کی حقیقی پوزیشن بدلیں گے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں