دیویندر پھڑنویس:27 میں میئر اور44 سال میں وزیر اعلی بنے!

مہاراشٹر میں پہلی بار اپنے دم پر حکومت بنانے جارہی بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی لیڈر شپ نے پارٹی کے نوجوان پردیش صدر دیویندر پھڑنویس پر اعتماد جتایا ہے۔ ہریانہ میں موہن لال کھٹر کی شکل میں غیر جاٹ وزیر اعلی دینے کے بعد بھاجپا نے اس نوجوان وزیر اعلی پر اپنا داؤں کھیلا ہے۔ دیویندر پھڑنویس پارٹی کا ابھرتا چہرہ ہیں اور مرکزی لیڈر شپ خاص کر وزیر اعظم نریندر مودی اور امت شاہ کی پسند ہیں۔ انہیں وزیر اعلی نامزد کرکے پارٹی نے جہاں پردیش میں سیاسی پاری کھیلنے کا ارادہ ظاہر کردیا ہے وہیں چناؤ کے پہلے تک بھاجپا 25 سال سے اتحادی جماعت رہی شیو سینا کیلئے بھی سخت پیغام دیا ہے۔ یوں تو 1995 سے 1999ء کے دوران بھاجپا نے شیو سینا کے ساتھ اتحاد اور سرکار میں اس کا کردار چھوٹے بھائی جیسا رہا ہے۔ نریندر مودی کی رہنمائی میں مرکز میں سرکار بنانے کے بعد سے بھاجپا کی نظر جن ریاستوں میں تھی اس میں مہاراشٹر بھی شامل تھا۔ شیو سینا کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے پارٹی نے چناؤ میں اکیلے جانے کا فیصلہ کیا اور اس کا یہ داؤ صحیح ثابت ہوا۔ بیشک بھاجپا کو مودی کی مقبولیت اور پارٹی صدر امت شاہ کی حکمت عملیوں کا فائدہ ملا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ پردیش بھاجپا پردھان رہے پھڑنویس نے پارٹی کو مضبوط کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی۔ یہ ہی نہیں اسمبلی میں بھی آدرش گھوٹالے اور سینچائی گھوٹالے کے اشو پر انہوں نے مسلسل کانگریس ایس سی پی سرکار پر تلخ حملے بھی کئے یہی وجہ تھی کہ این سی پی کے چیف شرد پوار اینڈ کمپنی یہ نہیں چاہتی تھی کہ صاف اور ایماندار ساکھ والے پھڑنویس کو وزیر اعلی بنایا جائے۔ وہ چاہتے تھے کہ نتن گڈکری کو بھاجپا وزیر اعلی اعلان کرے تاکہ ان سے وہ اپنا تال میل بٹھا سکیں۔ نئے وزیر اعلی بھی ودربھ سے ہی تعلق رکھتے ہیں لیکن بھاجپا کے سرکردہ اور مرکزی وزیر گڈکری کی زبردست پکڑ ہے لیکن گڈکری بھی اس نوجوان لیڈر کو اڑان بھرنے سے نہیں روک پائے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں دیویندر پھڑنویس ایک باصلاحیت اور زندہ دل نوجوان لیڈر کی شکل میں ابھرے ہیں۔ باوجود اس کے یہ بھی سچائی ہے کہ ان کے پاس انتظامی کاموں کاتجربہ کام ہے اور ان کی سیاست بھی کم و بیش ودربھ کے ارد گرد سمٹی رہی۔ سب سے کم عمر میں ناگپور کے میئر بننے کا کارنامہ بیشک ان کے پاس ہے اور چناؤ میں سرگرم رہنے کی وہ مسلسل مثال پیش کرتے رہے لیکن مہاراشٹر جیسی ریاست کی سب سے طاقتور کرسی کیلئے جیسے زبردست مضبوط دعویداروں کی فوج سامنے کھڑی تھی انہیں پچھاڑنا بھی کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ وزیر اعلی کے عہدے کی دوڑ میں نتن گڈکری جیسے سرکردہ لیڈر کو پیچھے چھوڑدینے والے پھڑنویس کو مودی اور شاہ کے ساتھ آر ایس ایس کی بھی حمایت حاصل ہے اور وہ اس ودربھ سے آتے ہیں جس میں بھاجپا کو علاقے کی 62 میں سے44 سیٹیں دی ہیں۔ ظاہر ہے ان کے وزیر اعلی بننے سے بھلے ہی الگ ودربھ ریاست کی مانگ کو تھوڑا بریک مل جائے مگر اس حلقے کے لوگوں کی ان سے توقعات کافی ہوں گی۔ خاص طور سے اس لئے بھی کیونکہ پچھلے کچھ برسوں سے یہ علاقہ کسانوں کی خودکشی کے سبب سرخیوں میں چھایا رہا ہے۔ ہریانہ میں منوہر لال کھٹ کی شکل میں غیر جاٹ لیڈر وزیر اعلی دینے کے بعد بھاجپا پھڑنویس کی شکل میں مہاراشٹر میں غیر مراٹھا وزیر اعلی دے رہی ہے۔ یہ پردیش کی سیاست میں ایک طرح سے مراٹھا دبدبے کو چنوتی ہے۔ سب سے دلچسپ صورتحال شیو سینا کی ہوگئی ہے جسے ایک طرح سے تھوک کر چاٹنا پڑا ہے۔ مودی اور شاہ اب اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ادھو ٹھاکرے اور دیگر شیو سینا لیڈر پہلے معافی مانگیں پھر آگے بات ہوگی۔ سابق وزیر اعلی پرتھوی راج چوہان تو منموہن سنگھ کی طرح اتحاد کی سیاسی مجبوریوں کا حوالہ دیکر نکل گئے لیکن پھڑنویس ایسا نہیں کرپائیں گے۔ اس بار مہاراشٹر اسمبلی میں پہنچنے والوں میں داغیوں کی تعداد کافی بڑھی ہے جس میں بھاجپا بھی کم نہیں ہے۔ انہیں کیسے لگام میں رکھیں گے نئے وزیر اعلی؟ پھر اپنی پارٹی کے اہم لیڈروں سے نمٹنا سابقہ سرکار کے گھوٹالوں سے نمٹنا ہوگا جو اب بڑی ریس میں منہ کی کھانے کے بعد چوٹ پہنچانے کے نئے راستے کی تلاش میں لگ جائیں گے۔ شری دیویندر پھڑنویس 27 سال میں میئر بنے اور 44 ویں سال میں وزیر اعلی۔ انہیں مکھیہ منتری بننے پر مبارکباد۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟