معاملہ کالے دھن کا:اب دارومدار ایس آئی ٹی پر!

کالی کمائی کے معاملے میں یہ اہم پیش رفت کہی جائے گی کہ پھٹکار کھانے کے بعد مودی سرکار نے سپریم کورٹ کو 627 سوئس کھاتے داروں کے نام پیش کردئے ہیں۔تمام لیکن ویکن کے درمیان آخر کار سرکار کو یہ فہرست سونپی پڑی۔ عدالت کے آدیش سے سرکار کی راہ آسان ہوگئی ہے۔ جن بین الاقوامی معاہدوں کے جواز کو نظر انداز کر سرکار کے نام کا خلاصہ کرنے کی قوت ارادی پر سوال اٹھائے جارہے تھے وہ اڑچن عدالتی حکم کے ساتھ ختم ہوگئی۔ حالانکہ ان میں کون اور کن سیکٹروں سے جڑے لوگ شامل ہیں اس کا خلاصہ عدالت نے نہیں کیا ہے لیکن جس طرح ان ناموں کو ایس آئی ٹی کوسونپتے ہوئے سپریم کورٹ نے طے میعاد میں جانچ کے احکامات دئے ہیں اس سے اتنی تو امید جاگی ہے کہ کالی کمائی کی حقیقت جلد ہی دیش کے سامنے آجائے گی۔ سپریم کورٹ نے بھی فہرست اپنے ماتحت کام کررہی ایس آئی ٹی کو سونپتے ہوئے اس کو راز میں رکھنے کا بھروسہ حکومت کو دیا ہے۔ ہدایت دی گئی ہے کہ فہرست کو جانچ ٹیم کے چیئرمین اور وائس چیئرمین ہی کھول سکیں گے۔ ایک اصل بات یہ جوڑ دی گئی ہے کہ ایس آئی ٹی کی خاصیت اور وسائل کے لحاظ سے تفتیش میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور سینٹرل انویسٹی گیشن بیورو کی بھی مدد لی جا سکتی ہے تاکہ جانچ ٹھیک ٹھاک پوری ہوسکے۔ اگر چہ ناموں کی فہرست نئی نہیں ہے اسے2011ء میں ہی فرانس نے بھارت سرکار کو دستیاب کرا دیا تھا۔ یوپی اے سرکار اسے تین سال تک دبائے رہی۔ این ڈی اے کے اقتدار میں آتے ہی نہ صرف ایس آئی ٹی بنائی گئی بلکہ گذشتہ جولائی میں وہ فہرست بھی دستیاب کرا دی گئی۔ معاہدے کی پیچیدگیوں کے چلتے اسے شارے عام تب تک نہیں کیا گیا اور نہ اب۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ جن ملکوں میں کالی کمائی رکھنے کی سہولت ہے ان پر پچھلے دنوں یہ دباؤ بڑھا کے وہ اپنے کام کاج کو شفاف بائیں۔ بین الاقوامی برادری نے یہ محسوس کیا کہ خفیہ کھاتوں کا استعمال دہشت گردی اور نشے کی اسمگلنگ جیسے بین الاقوامی جرائم میں ہوتا ہے اور کالی کمائی کا بڑا کردار 2009ء میں اقتصادی مندی میں بھی تھا۔ اس دباؤ کا نتیجہ سامنے آرہا ہے اور کئی بینک اپنا کام کاج ٹھیک ٹھاک کرنے میں لگے ہیں۔ سب سے زیادہ فرق امریکی دباؤکا پڑا ہے۔ کیونکہ ایک تو امریکہ بڑی طاقت ہے اسے اگر کسی بینک میں ذرا بھی گڑ بڑی ملتی ہے تو امریکہ میں اس بینک کی برانچوں میں شامل کی جاتی ہے جبکہ بھارت کے کئی ملکوں سے ایسے معاہدے ہیں جن سے ان ملکوں میں کھاتہ داروں پر کارروائی مشکل ہے۔ اب جو فہرست سپریم کورٹ نے این آئی ٹی کو دی ہے وہ پچھلے چار ماہ سے مرکزی سرکار کے پاس ہے۔ تکلیف دہ یہ رہا ہے کہ سرکار کے چہرے تو بدل گئے ہیں لیکن کالی کمائی کے معاملے پر سرکاری رویہ پرانی سرکاروں کی طرح ہی رہا۔ گڑ بڑ گھوٹالہ یہ بھی ہے کہ کالی کمائی کو صرف ٹیکس چوری کا معاملہ بتانے کی کوشش ہورہی ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے ایک سینئر عہدے دار کابیان ہے کہ بھارت سرکار سے اب تک صرف ٹیکس چوری پر بات ہوئی ہے جبکہ یہ صرف ٹیکس چوری کا پیسہ نہیں کرپٹ منی کا معاملہ ہے۔ بہرحال اب گیند سیاسی میدان سے نکل کر ایس آئی ٹی کے پالے میں ہے۔ دیکھنا ہے کہ جس کالے دھن کا ذکر سن سن کر کان پک چکے ہیں وہ کس حد تک پکڑ میں آتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟