کیا جھارکھنڈ۔ جموں وکشمیر میں بھی مودی کا جادو چلے گا؟

مہاراشٹر ۔ہریانہ کے بعد اب جھارکھنڈ اور جموں وکشمیرکے اسمبلی چناؤ کیلئے بگل بج چکا ہے۔ ایک بار پھر ان دونوں ریاستوں میں چناوی شطرنج کی بساط بچھ گئی ہے۔ سیاسی مہرے اس دوران اپنی چالیں چلیں گے۔ اس سیاسی شے مات میں کس کی جیت ہوتی ہے وہ تو23 دسمبر کو ہی پتہ چلے گا لیکن ان دونوں ریاستوں پر عام لوگوں کی نظررہے گی۔ مہاراشٹر اور ہریانہ میں صرف ایک ہی دور میں پولنگ نمٹا دی گئی تھی۔ اس لئے جھارکھنڈ اور جموں وکشمیر میں لمبے چناوی پروگرام پر لوگ سوال ضرور کررہے ہیں لیکن ان دونوں ریاستوں میں دہشت گردوں نکسلیوں کے علاوہ پاکستانی دراندازوں کے خطرے کودیکھتے ہوئے چناؤ کمیشن کی چوکسی سمجھ میں آتی ہے جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات میں رخنہ ڈالنے کے لئے جہاں علیحدگی پسند عناصر سرگرم ہو گئے ہیں وہیں پڑوسی پاکستان بھی ان میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔ اگر جموں و کشمیر میں چناؤ اچھے ڈھنگ سے نمٹ جاتے ہیں تو یہ پاکستان اور علیحدگی پسندوں کے لئے زبردست جھٹکا ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ مہاراشٹر اور ہریانہ کی طرز پر ان دونوں ریاستوں کا چناؤ بھی نریندر مودی بنام باقی پارٹیاں ہوگا۔کیا ان دونوں ریاستوں میں وزیر اعظم نریندر مودی بھاجپا کے اسٹار کمپینر ہوں گے۔ پارٹی نے ان کی چمک کے سہارے ہی دونوں ریاستوں میں چناؤ میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہاں پر بھاجپا نے ایک بار پھر سے مہاراشٹر اور ہریانہ کی طرح کسی کو بھی وزیر اعلی کے عہدے کیلئے اعلان کئے بنا ہی مودی کے نام پر چناؤ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔بھاجپا کا خیال ہے کہ پہلے100 دن میں جس طرح سے پروگرام اور پالیسی کے محاذ پر وزیر اعظم نریندر مودی کی لیڈر شپ میں کام ہوا ہے ، اس سے دیش میں ابھی بھی مودی لہر برقرار ہے۔ ایسے میں ان دونوں چناؤ میں بھی اسے کامیابی حاصل ہوگی۔ بھاجپا جموں وکشمیر میں لگتا ہے کہ کسی بھی چناؤ سے پہلے اتحاد نہیں کرے گی اور اپنے بل پر سبھی 87 اسمبلی سیٹوں پر چناؤ لڑے گی۔ امت شاہ اب جموں و کشمیر کے مشن 44 پر داؤ لگائے ہوئے ہیں۔ جموں اور لداخ میں تو بھاجپا مضبوط ہے اصل امتحان تو کشمیر وادی میں ہوگا۔ جموں وکشمیر میں بھاجپا کی بہترین کارکردگی 2008 اسمبلی چناؤ میں دکھائی دی تھی جب پارٹی نے 11 سیٹیں جیتی تھیں۔ اس بار لوک سبھا چناؤ کے بعد حالات سے پارٹی کو امید دکھائی دی لیکن راستہ مشکل ہے۔ لوک سبھا چناؤ میں جموں اور لداخ خطے کی 41 سیٹوں میں سے27 سیٹوں پر بڑھت حاصل کی تھی لیکن وادی کی باقی46 سیٹوں میں اس کو زیادہ کامیابی نہیں ملی تھی لیکن اس بار نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور کانگریس میں بٹنے کا فائدہ ملنے کی امید ہے۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس الگ الگ چناؤ لڑ رہی ہیں۔ ایسے میں بھاجپا سب سے بڑی پارٹی بن کر متبادل بننے کی کوشش کرے گی۔ 2000ء میں بہار سے الگ ہونے کے بعد جھارکھنڈ نے سیاسی سطح پر بیحد عدم استحکام کا دور دکھائی دیا۔ ساتھ ہی اس دوران ایسے واقعات ہوئے جس نے پورے دیش کو شرمسار کیا۔ یہ اکیلی ایسی ریاست ہے جہاں مدھو کوڑا کی لیڈر شپ میں پانچ آزاد ممبران اسمبلی کی مدد سے سرکار بنی تھی۔ بعد میں وزیر اعلی سمیت ساری کیبنٹ کرپشن کے کیس میں جیل گئی۔ راجیہ سبھا سیٹ بکنے تک کے معاملے آئے اور14 سال میں12 بار نئی سرکار بنی اور گری۔ ہر بڑی پارٹی نے اقتدار پایا۔ ایسے میں کیا چناؤ کے بعد ریاست میں پانچ سالوں کیلئے مضبوط سرکار بنے گی یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا لیکن نریندر مودی کو روکنے کیلئے جھارکھنڈ میں بہار کے طرز پر مہا گٹھ بندھن بنانے کی تیاری چل رہی ہے جس میں آر جے ڈی ، کانگریس اور جے ایم ایم ایک ساتھ ہوں گے۔ اس لئے یہ چناؤ ایسے محاذ کا مستقبل طے کرے گا۔دراصل بہار میں مہا گٹھ بندھن کے استعمال کو کامیابی ملی تھی جب10 سیٹوں کے ضمنی چناؤ میں اسے6 سیٹیں ملی تھیں لیکن پہلی بار پورے ریاستی چناؤ میں اس کا استعمال ناکام رہا۔ اگر یہ محاذ کامیاب ہوگیا تو پھر بہار اور دوسری ریاستوں میں جارحانہ طریقے سے اپوزیشن متحد ہوسکتی ہے اور اگر مودی کا جادو اس پر بھاری پڑا تو پھر اپوزیشن کے مایوسی ہاتھ لگے گی۔ کانگریس کی ساکھ ایک بار پھر داؤ ں پر ہوگی۔ جارکھنڈ میں کانگریس کی مدد سے سرکار چل رہی ہے تو جموں و کشمیر میں چند مہینے تک نیشنل کانفرنس کے ساتھ سرکار میں تھی لیکن پہلے لوک سبھا اور حال ہی میں دو ریاستوں میں پارٹی کی جس طرح سے شرمناک ہار ہوئی اس سے کانگریس اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہی ہے۔ اگر ان دونوں ریاستوں میں پارٹی نے اپنی سیاسی ساکھ نہیں بچائی تو راہل گاندھی پر سنگین سوال کھڑے ہوجائیں گے۔ جس کے اشارے ابھی سے خود پارٹی لیڈر دینے لگے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟