دیوالی کے دن کشمیر یاترا مودی کا ماسٹر اسٹروک!

پردھان منتری نریندر مودی کی شخصیت اور وچار دھارا کو لیکر کتنے بھی اختلافات ہوں سچ یا جھوٹ خیالات دیش اور دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں کہ کسی صحیح نتیجے پر پہنچنا مشکل ہے۔ لیکن یہ تو ماننا ہی ہوگا کہ ان کی شخصیت اور کام کرنے کا طریقہ عوام کو اپنا مرید بنا لیتا ہے اور یہی ان کی سوچ ہے اور اسی سوچ کی ایک مثال ہمیں دیوالی کے دن جب سارا دیش اپنے اپنے گھروں کو سجانے میں اور دیپ جلا کر اجالاکررہا تھا نریندر مودی کشمیر کے باڑھ اور تباہی سے متاثرین کے ساتھ کچھ وقت بتاکر ان کی زخموں پر مرہم لگا رہے تھے۔جہلم میں آئی باڑھ کے بعد یہ دوسرا موقعہ ہے جب پردھان منتری خود ریاست میں موجود تھے اور سماج کے مختلف طبقوں سے مل کر ان کی ضرورتوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ باڑھ کے وقت وہاں لوگوں کے بیچ ریاستی سرکار کی موجودگی ہی قریب دو ہفتوں کے لئے جس طرح غائب ہوگئی تھی اس میں اگر مرکزی سرکار اور فوج عین وقت پر مدد میں نہیں کودتی تو پتہ نہیں کیا ہوجاتا۔ مودی نے دیوالی کا دن شاید اسی لئے چنا ہوگا کہ تباہی کے اندھیروں میں ڈوبے دلوں میں امید کا دیپ جلایا جائے۔ 11 سال پہلے بھی انہوں نے یہی کیا تھا بس جگہ اور حادثے میں فرق تھا۔ زلزلے کے قہر سے تباہ گجرات میں ان دنوں مودی وزیر اعلی تھے اور حادثے کے سال آئی دیوالی انہوں نے پوری طرح تباہ ہوچکے بھج کے متاثرین کے ساتھ منائی تھی۔دیوالی پر کشمیر کے باڑھ اورتباہی کے متاثرین کے درمیان رہنے سے پردھان منتری نے ایک تیر سے کئی نشانے سادھ لئے ہیں۔ ان کے اس ماسٹر اسکوپ سے مخالف دل بھی حیران ہیں۔وہ مخالفت کیلئے بھی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں تلاش کرپا رہے۔کشمیر کی دونوں بڑی پارٹیوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے مودی کے قدم کا خیر مقدم کیا ہے۔ حریت نے مخالفت کرتے ہوئے عام ہڑتال کے اعلان پرانجانے میں مودی کے مشن کشمیر کو ہی مضبوط کیا ہے۔ ادھر مودی کے آنے کا اعلان ہوتے ہی پاکستان نے سیز فائر کی خلاف ورزی کر کشمیر مدعے کو بین الاقوامی منچ پر لے جانے کی پھر کوشش کی ہے۔ مودی کا یہ اعلان اچانک سامنے ضرور آیا لیکن یہ بھاجپا کے مشن ۔44 کے تحت اپنائی گئی سوچ سمجھی حکمت عملی ہے۔مہاراشٹر اور ہریانہ میں جیت کے بعد اب بھاجپا کے ایجنڈے میں جھارکھنڈ اور جموں و کشمیر سب سے اوپر ہیں۔ جہاں دسمبر۔ جنوری میں چناؤ ہونے والے ہیں۔باڑھ متاثرین کے درد کو اپنا مانتے ہوئے مودی نے اس بار اپنا جنم دن بھی نہیں منایا۔ اس سے پہلے باڑھ کے آتے ہی وہ فوراً کشمیر آئے اور 1 ہزار کروڑ کی مدد کی۔پہلی قسط کا اعلان بھی کر آئے۔ مودی کے ذریعے یہ صاف کرنا کہ متاثرین کے نقصان کا اندازہ کرکے جو معاوضہ یا مالی امداد ہوگی وہ سیدھے متاثرین کے بینک کھاتوں میں جائے گی، بھی ایک نیا اور قابل ستائش قدم ہے۔بہتر ہے کہ تقریروں میں کشمیر کی ایکتا کی گرج لگانے کی بجائے اسے کرنی سے قائم کیا جائے اور مودی بیشک ویسا ہی کررہے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ مودی کو کشمیر گھاٹی میں صرف تباہی کی چنوتیوں سے ہی نہیں جھوجھنا ہے بلکہ نفرت اور کالے منصوبوں میں ڈوبی اس سوچ سے بھی دوچار ہونا ہے جس نے زمین کی جنت کہے جانے والی کشمیر گھاٹی کو تباہ کررکھا ہے۔مودی کے آنے کے ردعمل میں وزیر اعلی عمر عبداللہ یاد دلانا نہیں بھولتے کہ وہ خود عید منانے والے مسلمان ہیں جبکہ مودی ایسے ہندو ہیں جو اپنی دیوالی چھوڑ کر یہاں آرہے ہیں۔ کیا یہ عجیب نہیں کہ مودی کے باڑھ متاثرین کے درمیان جانے کی خوشگوار پہل میں کانگریس کو مین میخ نکالنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا یہ محض آلوچنا کیلئے آلوچناکی ایک اور مثال نہیں ہے؟ کشمیرمیں الگاؤ وادیوں نے تو یہ کہہ کر اپنی تعصب نظری اور چھوٹی سوچ کا ہی مظاہرہ کیا کہ پردھان منتری اپنی سنسکرتی ہم پر لادھنے آرہے ہیں۔راستے سے بھٹکے الگاؤوادیوں کے ایسے تنگ نظریئے پر حیرت نہیں لیکن یہ سوال تو اٹھے گا ہی کہ ان کی ہمت توڑنے کیلئے صرف وزیر اعلی عمر عبداللہ ہی کیوں آگے آئیں؟ کیا یہ اچھا نہیں ہوتا کہ سبھی سیاسی دل کشمیر کے الگاؤ وادیوں کی ایک آواز میں نندا کرتے ۔ دیوالی کے دن باڑھ متاثرین کے درمیان رہ کر پردھان منتری کی پہل کل ملاکر دکھی لوگوں کے درمیان امیدوں کا دیپ جلانے اور پورے دیش کو ایک مثبت پیغام دینے والا ہے۔ آخر دیوالی یہی تو پیغام دیتی ہے کہ چاروں طرف خوشحالی کا سنچار ہو اور جن جن کے درمیان سکھ شانتی بھائی چارے کا پرسار ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟