دہلی میں اقلیتی حکومت کا راستہ صاف ہوا!

پچھلے پانچ مہینے سے صدر راج کے ماتحت غیر یقینی ماحول سے دوچار دہلی کی سیاست فیصلہ کن موڑ پر پہنچی دکھائی دے رہی ہے۔ مایوس دہلی کے شہریوں کے لئے سپریم کورٹ کے تازہ ریمارکس سے سرکار بننے کے علاوہ نئے سرے سے چناؤ ہونے کی امید جاگی ہے۔ ظاہر ہے دہلی میں جاری تعطل کا خمیازہ تو دہلی کے باشندے ہی بھگت رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ گورنر جلد سے جلد دہلی کی سبھی اہم پارٹیوں سے بات کر سرکار بنانے کے امکان پر آخری رائے لینے والے ہیں۔ ویسے سب سے بڑی پارٹی بھاجپا کو سرکار بنانے کے لئے مدعو کرنے کے ان کی تجویز کو دونوں صدر جمہوریہ اور سپریم کورٹ سے ہری جھنڈی مل چکی ہے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ نے لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے سرکار کی تشکیل کے امکانات تلاشنے کے لئے لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ کے قدموں پر نہ صرف تسلی جتائی ہے بلکہ انہیں کچھ اور وقت دینے کیونکہ باہر سے حمایت میں اقلیتی سرکار بن سکتی ہے۔ اس معاملے کی سماعت11 نومبر کو ہونی ہے۔ اس طرح لیفٹیننٹ گورنر کے پاس معاملے کو ہر حال میں نپٹانے کے لئے 12 دن کا وقت ہے۔ دہلی کی موجودہ صورتحال کے لئے حالانکہ تینوں سیاسی پارٹیاں کم و بیش ذمہ دار ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے دہلی کے اقتدار کو سنبھال کر جو لوگوں میں امید پیدا کی تھی وہ جن لوکپال کے اشو پر 49 دنوں میں ہی اقتدار چھوڑ کر دہلی کی جنتا کو مایوسی کے عالم میں چھوڑ گئی۔ بعد میں بیشک کیجریوال نے اس بات کو تسلیم کیا کہ استعفیٰ دینا غلطی تھی۔ دہلی کے سبھی ممبران اسمبلی چاہے وہ کسی بھی پارٹی کے ہوں، نئے چناؤ سے کترا رہے ہیں۔ پردیش کانگریس کمیٹی نے حالانکہ بی جے پی پر الزام لگایا ہے کہ وہ اسمبلی چناؤ سے ڈر کر بھاگ رہی ہے۔ بی جے پی کے نیتاؤں کو دہلی کی پوری آئینی صورتحال کے بارے میں واقفیت کے باوجود اس کے دہلی میں ضمنی چناؤ کا اعلان ہوا۔ پردیش کانگریس کے چیف ترجمان مکیش شرما نے کہا جب دہلی میں کسی بھی پارٹی کے پاس اکثریت نہیں ہے تو پھر دہلی میں ضمنی چناؤ کرانے کا کوئی مطلب نہیں نکلتا۔ جہاں تک دہلی کی تین سیٹوں پر ضمنی چناؤ کا سوال ہے چناؤ کمیشن نے یہ صاف کردیا ہے کہ اگر دہلی اسمبلی بھنگ کی جاتی ہے تو ضمنی چناؤ نہیں کرایا جائے گا۔ یہ صحیح ہے کہ موجودہ حالات میں کوئی دہلی میں سرکار بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے پھر چناؤ کرانا کیونکہ ایک خرچیلا عمل ہے ایسے میں لیفٹیننٹ گورنر کا نئی سرکار کے لئے سیاسی پارٹیوں سے مل کر امکانات تلاشنا بھی غلط نہیں ہے لیکن اس معاملے میں بھاجپا کا موقف شروع سے ہی متضاد ہے۔اس نے پہلے کہا کہ خریدوفروخت کے ذریعے اقلیتی سرکار نہیں بنائے گی لیکن اپوزیشن ممبران کو توڑنے کی کوشش کے الزام بھی اس پر لگے۔ ابھی اس نے عدالت کو بتایا کہ لیفٹیننٹ گورنر اسے سرکار کی تشکیل کے لئے بلانے والے ہیں۔ جمہوریت میں محض جوڑ توڑ کر سرکار بنانا اور پھر نمبر نہ پورا ہونے پر بھاگ جانا نہیں ہے۔ آخر بار بار چناؤ میں پیسہ جنتا کا ہی خرچ ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر موجودہ اسمبلی میں ہی کسی سرکار کا امکان بن سکتا ہے تو اسے آگے بڑھنا مناسب ہوگا کیونکہ ملک کے ماحول کو دیکھتے ہوئے عدل بدل والے چناؤ نتائج کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تو پھر نا حق وقت میں پیسے کی بربادی سے کیا فائدہ ہوگا؟ پھر اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ دوبارہ چناؤ ہوئے تھے کسی بھی پارٹی کو اکثریت ہی مل جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟