ممبر پارلیمنٹ کا گھر یا پھر ٹارچر روم؟

گھریلو کام کاج کرنے والی عورتوں کیساتھ راجدھانی میں بڑھتے ہوئے ظلم کے ایک تازہ معاملے نے سبھی کو نہ صرف چونکا دیا ہے بلکہ ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اگر کوئی جاہل ،گنوار، انپڑھ آدمی یا میاں بیوی ایسی حرکت کریں تو ایک بار سمجھ میں آتا ہے لیکن جب ایک ذمہ دار عوامی نمائندہ وہ بھی ایک ممبر پارلیمنٹ اور اس کی ڈاکٹر بیوی ایسی گھناؤنی حرکت کریں تو سمجھ سے باہر بات ہوتی ہے۔کم سے کم ہماری سمجھ سے تو باہر ہے۔ میں تو بات کررہا ہوں جونپور سے بسپا ایم پی دھننجے سنگھ اور ان کی ڈاکٹر ڈینٹسٹ بیوی جاگیرتی سنگھ کی۔ انہوں نے اپنی نوکرانی کے قتل کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ واردات دھننجے سنگھ کے نئی دہلی میں واقع گھر ساؤتھ ایوینیو میں سرکاری رہائش گاہ کی ہے۔ پیر کی رات آٹھ بجے ایم پی نے پولیس کو فون کر گھریلو نوکرانی کی موت کی خبر دی۔ موقعہ واردات پر پہنچی پولیس نے دیکھا کہ عورت کے سر اور چہرے پر چوٹ کے کئی نشان تھے۔ اسے فوراً آر ایم ایل ہسپتال پہنچایا گیا جہاں اسے مردہ اعلان کردیا گیا۔ اس بدقسمت کی شناخت مغربی بنگال کی باشندہ 40 سالہ راکھی کی شکل میں ہوئی ہے۔ ڈاکٹر جاگیرتی سنگھ نے اپنا قصورچھپانے کے لئے پولیس کو بتایا نوکرانی راکھی چھت سے گر گئی جس سے اس کی موت ہوگئی۔ حالانکہ گھر کے نابالغ نوکر سمیت دیگر نے اس کہانی کو جھوٹ بتایا اور سیدھا کہا کہ موت جاگیرتی کی پٹائی سے ہوئی ہے۔ پولیس ڈپٹی کمشنر مکیش کمار مینا نے بتایا کہ نوکرانی کو بے رحمی سے مارا گیا۔اس معاملے میں گھر کے ایک نابالغ نوکر نے کافی اہم جانکاری دی۔17 سالہ لڑکے نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جسم پر تمام چوٹیں دکھا کر مظالم کی تمام داستان سنائی۔ اس نے کئی اور جانکاریاں ایسی دیں جس میں پولیس کو اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں ایم پی کی بیوی ڈاکٹر جاگیرتی سنگھ کسی ذہنی بیماری کا شکار تو نہیں ہیں کیونکہ کوئی عام آدمی گھر کے نوکروں کے ساتھ ایسا غیر انسانی ظلم نہیں ڈھا سکتا۔ لڑکے نے یہ جانکاری دی کے کچھ عرصے پہلے گھر کا پالتو کتا بھی گھر سے بھاگ گیا اور لوٹا نہیں۔ کتے کے بھاگنے کی سزا اسے ملی۔ جاگیرتی سنگھ نے گرم راڈ سے اس لڑکے کو کئی جگہ داغا۔ جاگیرتی کا سزا دینے کا طریقہ بھی الگ الگ ہوتا تھا۔ کئی بار وہ کتے ٹامی سے کٹواتی تھی۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ ظلم کو انجام دینے والی ایک عورت اور وہ بھی ایک ڈاکٹر ہے۔ ظلم ڈھانے والی اگر پڑھی لکھی اور مہذب گھروں کی عورتیں ہیں تو ظلم سہنے والی بے سہارا مزدور جھارکھنڈ، منی پور اور مغربی بنگال سے آئی عورتیں ہوتی ہیں۔ دن بھر کام کرنے کے بعد بھی ان کے حصے میں بھوک اور گالیاں پٹائی اور بے عزتی ہی آتی ہے۔کام والیوں کے بال کاٹ دئے جاتے ہیں، ان پر کتے چھوڑ دئے جاتے ہیں، مالکنوں کی ذیادتی کے قصے باہر نہ آجائیں اس کے لئے کام والیوں کو ننگا کرکے رکھنے سے لیکر گھروں میں بند کردینے کے انگنت واقعات ہیں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ ان کی چیخ اکثر پڑوسیوں کے کانوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ ان بے زبانوں کی مجبوری ہے کہ پاپی پیٹ کے لئے تمام ظلم سہنے پڑتے ہیں۔ ڈاکٹر جاگیرتی سنگھ اور ان کے شوہر دھننجے سنگھ دونوں ہی کرمنل ذہنیت کے ہیں۔ دھننجے سنگھ کا نام کئی اور موتوں میں بھی آیا ہے۔ غریب مٹانے کا دعوی کرنے والی سرکاروں کے لئے ٹھہر کر سوچنے کا موقعہ ہے کہ آج بھی سماج میں اتنے ظلم کیوں ہورہے ہیں کہ پیٹ بھرنے کے لئے نابالغ بچوں تک کو ایسے ظلم سہنے پڑتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟