کیا بسپا 2008ء چناؤ کے ووٹ فیصد کو آگے بڑھا سکے گی؟

بہوجن سماج پارٹی نے جمعہ کو 58 امیدواروں کی فہرست جاری کرکے دہلی اسمبلی چناؤ میں اپنی موجودگی درج کرانے کی کوشش کی ہے۔ تعجب اس بات کا ہے جس پارٹی کی سپریمو خود ایک عورت ہو اس پارٹی نے دہلی اسمبلی چناؤ میں محض ایک عورت کو ٹکٹ دیا ہے۔ ایک عورت امیدوار ریتو سنگھ کو نئی دہلی سیٹ سے وزیر اعلی شیلا دیکشت کے خلاف میدان میں اتارا گیا ہے۔ اب شیلا دیکشت بنام ہرش وردھن بنام اروند کیجریوال بنام ریتو سنگھ میں مقابلہ ہونا ہے۔ ابھی سپا اور دیگر پارٹیاں بچی ہیں۔ حالانکہ اس بارے میں دونوں موجودہ بسپا ممبر اسمبلی ٹکٹ کے حصول سے باہر ہیں۔ بدر پور کے بسپا ممبر اسمبلی رام سنگھ نیتا جی کانگریس میں شامل ہوچکے ہیں تو گوکل پور سے بسپا ممبر اسمبلی سریندر کمار کا ٹکٹ کٹ گیا ہے۔ بسپا کے تین کونسلروں پشپ راج کو کراڑی سے، سہی رام کو تغلق آباد سے اور چودھری بلراج کو گوکلپور سے ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک عورت کونسلر سدیشوتی کے شوہر مدن موہن کو پالم اسمبلی سے امیدوار بنایاگیا ہے۔ سدیشوتی میونسپل چناؤ میں 10056 ووٹوں کے فرق سے سہی رام 4019 ، چودھری بلراج 2556 اور پشپراج محض563 ووٹ کے فرق سے چناؤ جیتے تھے۔ ان کے علاوہ 11 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ بسپا کے پردیش انچارج ایم ایل تومر کا کہنا ہے ہمارے امیدوار جلد پرچہ داخل کریں گے اور اپنے اپنے اسمبلی حلقے میں چناؤ کی تیاری کریں گے۔ بسپا دراصل 2008ء کے اسمبلی چناؤکا فائدہ آنے والے دہلی اسمبلی چناؤ میں بھنانے کی کوشش کررہی ہے۔ 2008ء اسمبلی چناؤمیں ووٹوں میں 14 فیصد حصے داری کے ساتھ وہ تیسرے مقام پر ہے۔ بسپا کی پردھان مایاوتی دہلی میں اپنی پارٹی کی پرفارمینس کو بڑھانا چاہتی ہیں۔ 2014ء کے لوک سبھا چناؤ کے لئے بسپا کا دہلی میں اپنی موجودگی درج کرانا اچھا اشارہ مانا جائے گا۔ حالانکہ پچھلے چناؤمیں اس بار ایک فرق آیا ہے وہ یہ اروند کیجریوال کی آپ پارٹی کا اثر دلت طبقوں میں زیادہ بڑھا ہے یہی ہے بسپا کا ووٹ بینک۔ حالانکہ بسپا کے دہلی انچارج رام اچل راج دھر نے کہا کہ ہم سبھی 70 سیٹوں پر چناؤلڑیں گے اور سخت ٹکر دیں گے۔ بھاجپا کی کوشش ہے روایتی دلت ووٹ بینک میں مسلمانوں،درجہ فہرست ذاتوں اور دیگر پسماندہ ذاتوں کو بھی جوڑا جائے۔ اس کے لئے بہن جی راجدھانی میں کئی چناؤ ریلیاں کریں گی۔1998ء میں پارٹی کو تقریباً تین فیصد ووٹ ملے تھے جو سال2003ء میں بڑھ کر9 فیصد اور 2008 ء میں بڑھ کر 14 فیصد ہوگئے تھے۔ اس وقت پارٹی کے حصے میں 867672 ووٹ آئے تھے تب کانگریس پہلے نمبر پر40.31، بھاجپا دوسرے نمبر پر 36.84 اور بسپا تیسرے مقام پر آئی تھی۔ بسپا کے حصے میں دو سیٹیں آئیں تھیں کم سے کم پانچ سیٹوں پر وہ دوسرے مقام پر رہی۔ اس بار پارٹی کو 20 فیصد ووٹ ملنے کی امید ہے۔انہوں نے کہا دہلی میں ووٹر دونوں کانگریس اور بھاجپا سے ناخوش ہے اس لئے وہ بھاجپا کو ہی ووٹ دے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟